درگاہ حضرت اجالے شاہؒ سعید آباد کا شمارحیدرآباد کی معروف درگاہوں میں ہوتاہے ۔ حضرت اجالے شاہ ؒ کے لاکھوں معتقدین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہرروز بے شمار زائرین درگاہ کی زیارت کو آتے ہیں ۔ اس درگاہ کے احاطہ میں کئی بزرگوں کی ابدی آرامگاہیں جن کی بے حرمتی کوئی اور نہیں بلکہ متولی اور ان کے افراد خاندان ہی کرتے ہیں ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب ہی کو ایک دن منوں مٹی کے نیچے دبا دیا جانے والا ہے اور وہی دو گز زمین ان کی ابدی آرامگاہ ہوتی ہے مگر اپنے اسلاف کی قبروں پر ہی اپنا مسکن بنانے والوں کو یہ تک خوف نہیں کہ ان کی آخرت کس قدر خراب ہوگی ۔ وقف بورڈ کے کچھ عہدیدار اور سابقہ انسپکٹر آڈیٹر نے مقبرہ کو آشیانہ میں تبدیل کردئیے جانے پر بھی اپنی آنکھیں موندھ رکھی ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ سب کچھ غیر شرعی اقدام ان ہی کی نگرانی میں ہوتا رہا ہے ۔ درگاہ حضرت اجالے شاہؒ کے تحت سعید آباد میں سروے نمبرات 255,255/1/255/2,255/3,255/4,255/5 & 256 کے تحت 28 ایکڑ 29 گنٹے ہیں جن کا قدیم سروے نمبر 6 ہے ۔ اس کے علاوہ درگاہ سے منسلک 76 ایکڑ 9 گنٹے زرعی زمین موضع گھٹکیسر ضلع رنگاریڈی میں ہے ۔ سعید آباد میں واقع 28 ایکڑ 29 گنٹے اراضی کے منجملہ تقریباً 25 ایکڑ اراضی پر قبضے ہوچکے ہیں جہاں آج کئی کالونیاں بسی ہوئی ہیں جن میں جیون یار جنگ کالونی ‘ اکبر باغ ( جزوی)بھی شامل ہیں ۔ درگاہ کے تحت گھٹکیسر میں واقع زمینات پر بھی کئی قبضے ہوچکے ہیں ۔ متولی کے خلاف وقف بورڈ سے بارہا نمائندگیاں کی گئیں مگر وقف بورڈ کے حکام ٹس سے مس نہیں ہوئے ہیں۔ سروے کمشنر سے بھی نمائندگی کی گئی تھی کہ وہ منتخب کے مطابق سروے کیا جائے توجوائنٹ سروے کمنشر نے کالونی کے کچھ با اثر لوگوں کے دباؤ میں آکرسروے کرنے سے گریز کررہے ہیں ۔ صدر نشین و چیف ایکزیکٹیو آفیسر وقف بورڈ سے دسمبر 2009 ء میں ایک تحریری محضر پیش کیا گیا تھاکہ متولی محمد عبدالعزیز اور ان کے فرزند محمد عبدالحمید پاشاہ نے قابضین محمد جانو اور ان کی اہلیہ آسیہ بیگم سے ملی بھگت کرتے ہوئے اے سی پی آفس مین گیٹ کے روبرو واقع قبور کو مسمار کرتے ہوئے کمرے تعمیر کرلئے ۔ قبور کی مسماری کے تعلق سے سابقہ انسپکٹر آڈیٹر کو مطلع کیا گیا مگر انہوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے قبور کو مسمار ہونے سے روکنے اور خاطیوں کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرنے سے احتراز کرتے ہوئے قبور کی بے حرمتی کرنے والوں کو سزاء دلانے سے قاصر رہے ۔اس لئے تحریری محضر میں وقف بورڈ کے ارباب مجاز سے خواہش کی گئی کہ قبورکی مسماری پر انسپکٹر آڈیٹر کے خلاف بھی فوجداری کارروائی کی جائے مگر نہ ہی آج تک قبور مسمار کرنے والوں کے خلاف وقف بورڈ نے پولیس میں شکایت درج کروائی اور نہ ہی ان کی پشت پناہی کرنے والے انسپکٹر آڈیٹر کے خلاف اس ضمن میں کوئی تادیبی کارروائی کی گئی ہے ۔ وقف بورڈ کے علم میں یہ بھی بات لائی گئی کہ مذکورہ قابضین نے سارے مقبرہ پر قبضہ کرلیا اور مقبرہ کو رہائشی مکان میں تبدیل کرلیاہے جس میں ڈومیسٹک الکٹریسٹی میٹر اور نل کنکشن بھی حاصل کرلیاگیا ہے ۔ اگر ریاست کے دارالخلافہ میں واقع اہم اوقافی اداروں کی جائیدادوں کا یہ حشر ہوتو ریاست کے دور دراز علاقوں میں واقع اوقافی جائیدادوں کی صیانت میں بورڈ کے اقدامات کیا ہوں گے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔ مقبروں کو گھرمیں تبدیل ہوتا دیکھ کر بھی بورڈ کے عہدیدار متحرک نہ ہوں تو آخر وہ کب حرکت میں آئیں گے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ درگاہ سے منسلک تمام اوقافی جائیدادوں کی صیانت کے لئے خصوصی اقدامات کئے جاتے اورتمام ناجائز قابضین کو تخلیہ کی نوٹسس جاری کی جاتیں اور ان کے تخلیہ کے لئے ریونیو اورپولیس کے محکموں سے مدد لی جاتی تو آج اس درگاہ کی آمدنی میں لاکھوں روپے کا اضافہ ہوتا۔ کاش کہ وقف بورڈ کے مجاز عہدیداراپنے مفوضہ فرائض کو محسوس کرتے اور خوف الہیٰ سے کام کرتے ہوئے اوقافی جائیدادوں کی صیانت کے لئے کمربستہ ہوجاتے جس کے لئے نہ ہی ناجائز قابضین کے ساتھ ہاتھا پائی کرنی پڑتی اور نہ ہی اپنی توانائیاں صرف کرنی پڑتی بلکہ ان کے قلم کی جنبش ہی ناجائز قابضین کی راتوں کی نیندیں حرام کردیتیں ۔