Monday, June 9, 2025
Homeدیگرمفاد عامہنادرگل کی اوقافی اراضی کی صیانت سے وقف بورڈ کا گریز

نادرگل کی اوقافی اراضی کی صیانت سے وقف بورڈ کا گریز

- Advertisement -
- Advertisement -

وقف بورڈ کے عہدیداروں کی غفلت پر اسے محمول کیجئے یا قابضین زمین کے ساتھ ملی بھگت پر مگر وقف بورڈ تو قیمتی اوقافی جائیداد سے محروم ہورہا ہے ۔ ریاست کے صدر مقام حیدرآباد کے اطراف بلدہ میں پائی جانے والی قیمتی اوقافی اراضی پر قبضے ہوجائیں تو بھی کوئی حرکت نہیں ہوتی ۔ بے حسی و لاپرواہی کا عالم یہ ہے کہ کسی دردمند کے آگاہ کرنے پر بھی وقف بورڈ کے عہدیدار نہیں جاگتے ۔ مجبور ہوکر وقف بورڈ کی لاپرواہی و غفلت کے خلاف کچھ لوگ عدالت سے رجوع ہوتے ہیں ۔ معاملہ عدالت سے رجو ع ہونے پر بھی کسی قسم کی کارروائی کرنے سے گریز کیا جاتاہے ۔ ایسے ہی ایک کیس میں چند برس قبل مسٹر معلم محسن بن حسین الکثیری نے وقف بورڈ کو ایک محضر پیش کرتے ہوئے بورڈ کے عہدیداروں کو یاد دلا یا تھا کہ ضلع رنگاریڈی ‘سرور نگر منڈل کے موضع نادر گل میں سروے نمبرات 1, 2, 4, 5, 10, 15, 20, 26, 874, 3, 65 & 58 میں تقریباً 22ایکڑ 12 گنٹے اراضی جامع مسجد نادر گل کے تحت وقف ہے اور حکومت نے گزٹ نمبر 6-A مورخہ 9-2-89 صفحہ نمبر 233 سیریل نمبر 2929 میں مذکورہ وقف اراضی کا اعلامیہ شائع کیا اور مذکورہ گزٹ کو کسی نے چیالنج نہیں کیا ۔یہ اراضی وقف بورڈ کی راست نگرانی میں ہے ۔ انہوں نے مذکورہ اراضی پر قبضوں کے سلسلہ میں وقف بورڈ کو دو مکتوبات 19-06-06 اور 20-08-2008 کو روانہ کئے مگر بورڈ کے عہدیداروں نے اپنی جبلت کے مطابق ابتداء میں کچھ حرکت دکھائی اور پھر خاموش ہوگئے ۔ ایک مکتوب ریونیو ڈیویژنل آفیسر ‘ ایسٹ ڈیویژن کو 26-06-2006 کو روانہ کرتے ہوئے مذکورہ سروے نمبرات کی زمینات کا او آر سی وقف ادارہ کے نام پر جاری کرنے کی خواہش کی ۔ اس وقت کے چیف ایکزیکٹیو آفیسر نے ایک مکتوب سکریٹری گرام پنچایت نادر گل کو 29-08-2006 کو بھی روانہ کیا جس میں مذکورہ اوقافی اراضیات پر غیر قانونی قبضوں کو روکنے اور اس کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی خواہش کی مگر ایکزیکٹیو آفیسر گرام پنچایت نے کوئی اقدام نہیں کیا ۔ جن پر اوقافی جائیدادوں کی صیانت اور ان کے بہتر نظم کی ذمہ داری ہو‘ وہی اپنے مفوضہ فرائض سے فرار اختیار کرنے لگیں تو اغیار سے کیا شکایت۔ وقف بورڈ نے دو مکتوبات روانہ کرنے پر ہی اکتفاکرکے یہ سمجھ بیٹھا کہ وہ تو اپنا فرض پورا کرچکاہے ۔ اس کے بعد اوقافی جائیداد بچ رہ جائے تو اپنی نہیں تو کون باز پرس کرنے والا ہے ۔ وزیر یا حکومت کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے باز پرس کی تو انہیں گمراہ کرنا بورڈ کے عہدیداروں کو بڑی اچھی طرح آتا ہے مگر اب کچھ نوجوانوں نے اوقافی جائیدادوں کی صیانت کا بیڑہ اٹھایا ہے جو نہ صرف اوقافی جائیدادوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں بلکہ بورڈ کے غیر ذمہ دار عہدیداروں کو عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کررہے ہیں ۔ بورڈ کے عہدیداروں کی عدم کارکردگی پر مسٹر معلم محسن بن حسین الکثیری نے ہائی کورٹ میں ایک رٹ درخواست دائر کرتے ہوئے مذکورہ اراضی پر قبضہ کو برخاست کرنے اور بورڈ کے عہدیداروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کی استدعا کی ہے ۔ انہوں نے عدالت العالیہ میں داخل کردہ اپنے حلف نامہ میں بتایاکہ سید خواجہ معین الدین اور سید جلال الدین ساکنین نادرگل نے سروے نمبرات 58 اور 65 میں زمینات کے پٹہ دار ہونے کا ادعا کرتے ہوئے تیسرے فریق کے حقوق وضع کئے ۔ ان دونوں نے سروے نمبر 58 میں تقریباً 2 ایکڑ 11 گنٹے اراضی اور سروے نمبر 65 میں 2 ایکڑ 10 گنٹے اراضی بی کرونا کر ریڈی‘ غوثیہ بیگم‘ تنویر النساء بیگم کو فروخت کردیا جنہوں نے لکشمی نیلایا کنسٹرکشنس اور مسرس سوریہ چندرا رئیل اسٹیٹس کو فروخت کردیا ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ غوثیہ بیگم ‘خواجہ معین الدین کی اور تنویر النساء بیگم ‘ سیدجلال الدین کی اہلیہ ہیں جنہیں یہ زمین بطور تحفہ دی گئیں ۔ ان خریداروں نے ریونیو ریکارڈس میں بھی اپنے نام چڑھالئے ہیں ۔ وقف بورڈ کو دو سال بعد پھر ایک اور محضر پیش کرنے کے باوجود کارروائی نہ کئے جانے پر درخواست گذار نے عدالت سے رجوع ہوکر استدعا کی کہ غیر مجاز تعمیرات کو منہدم کرنے ‘ سروے نمبرات 58 اور 65 میں کئے گئے ناجائز قبضوں کو برخاست کرتے ہوئے اس کا قبضہ حاصل کرنے‘ مابقی سروے نمبرات کی زمینات کا بھی قبضہ حاصل کرنے اورسید خواجہ معین الدین ‘ سید جلال الدین ‘ بی کرونا کر ریڈی‘ غوثیہ بیگم‘ تنویر النساء بیگم ‘ بی سوریہ پرکاش ریڈی ( لکشمی نیلیا کنسٹرکشنس ) اورڈی جانکی اماں ( سوریہ چندرا رئیل اسٹیٹس) کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کی وقف بورڈ کو ہدایت دی جائے ۔ عدالت میں اس معاملہ کے پہنچنے کے باوجود بھی وقف بورڈ نے اپنی کوتاہیوں کا ازالہ نہیں کیا
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روٹی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو