Wednesday, April 23, 2025
Homeتلنگانہنظام کے عہد کے ہائی اسکول کی خستہ حال عمارت،فوری توجہ کی...

نظام کے عہد کے ہائی اسکول کی خستہ حال عمارت،فوری توجہ کی متقاضی

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ تلنگانہ کے مختلف علاقوں میں نظام کے عہد کی بیشتر عمارتیں موجود ہیں جس میں سرکاری اسکول بھی قابل ذکر ہیں، لیکن کئی ایسے مقامات موجود ہیں جہاں ابھی بھی نظام عہد کے اسکولس کی عمارتیں موجود ہیں لیکن یہ عمارتیں خستہ حال ہو چکی ہیں اور یہ عمارتیں اب تعلیمی مصروفیات کی بجائے جانوروں کی رہائش گاہوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ نظام عہد کی ایسی ہی ایک اسکولی عمارت ظہیرآباد میں بھی موجود ہے جو تقریبا 70 برس قبل تعمیر کی گئی تھی لیکن اب یہ خستہ حال عمارت کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ یہ عمارت نظام کے عہد میں میدک اور بیدر کے علاقے میں واحد اسکول تھا۔

 نظام عہد کے آخری حکمران میر عثمان علی خان نے 1940-42 میں یہ ہائی اسکول کی عمارت تعمیر کی تھی جس میں نو کمرے موجود ہیں۔ اس دور میں ایسا اسکول صرف کوہیر اور اسد گنج میں موجود تھا اور ریاست کرناٹک سے بھی طلباءاس اسکول میں تعلیم کے لئے آتے تھے اس کے علاوہ اسکول سے تعلیم مکمل کرنے والے کئی طلباءہندوستانی سیاست اور حکومتی عہدوں پر فائز ہوئے ہیں۔ ظہیرآباد میں موجود یہ نظام عہد کے اسکول کی عمارت بہت خستہ حال ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود اس میں اردو اور تلگو دونوں میڈیم کے 320 طلباء زیر تعلیم ہے جن کے لیے چھٹی تا دسویں جماعت کی تعلیم کا انتظام کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ خستہ حال عمارت کسی بھی لمحہ کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہو سکتی ہے۔

اس اسکول میں اساتذہ کے لئے کوئی اسٹاف روم ، اسپورٹس اسٹور اور لیبارٹری کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ نویں اور دسویں جماعت کے کمرے انتہائی خستہ حال ہیں جہاں کھڑکیوں کی جگہ دیواروں میں بڑے بڑے شگاف موجود ہیں۔ مسائل کی حد تو اس وقت انتہا پر پہنچ جاتی ہے جب اگر شہر میں بارش ہو تو اسکول کو تعطیل ہی دے دی جاتی ہے۔ اسکول انتظامیہ کے علاوہ مقامی افراد نے بھی کئی مرتبہ ارباب مجاز سے ملاقات کرتے ہوئے اس مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے لیکن کوئی ثمرآور نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ منڈل ایجوکیشن آفیسر بسوا راج نے کہا ہے کہ متعلقہ اداروں کو یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ خستہ حال عمارت کی بجائے دوسری عمارت فراہم کرتے ہوئے اس تاریخی عمارت کی آہک پاشی کا انتظام کیا جائے اور امید کی جارہی ہے کہ حکومت کی جانب سے مثبت ردعمل اور جواب آئے گا۔