خرطوم- براعظم افریقہ کا مسلم ملک سوڈان ان دنوں اپنے سیاسی انقلاب کی وجہ سے سرخیوں میں موجود ہے جہاں حکومت ،فوج اور عوام کے درمیان ایک تصادم کا ماحول بناہوا ہے ۔سوڈان میں حکومت کے خلاف فوج صف آرا ہوچکی ہے لیکن عوام نے فوج کی سرپرستی کو بھی ماننے سے انکار کردیا ہے لیکن ان تمام حالات میں ایک نوجوان لڑکی کا ویڈیو وائرل ہواہے اور اس لڑکی سوڈان کی انقلابی قائد مانا جارہا ہے۔
سوڈان کے وزیر دفاع نے بھی ملک میں حکومت کو بے دخل کرنے کے بعد فوج کی جانب سے حکومتی انتظامات کو سنبھالنے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ 2 سال کے اندر عام انتخابات کروائے جائیں گے۔ سوڈان کی فوج نے ملک پر 30 سال تک حکومت کرنے والے صدر عمر البشیر کو ایک ایسے وقت میں گرفتار کرکے حکومت کے انتظامات سنبھالے جب چند دن قبل ہی ایک سوڈانی لڑکی کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں ۔
ان ویڈیوز میں سفید لباس میں ملبوس نوجوان لڑکی کو لوگوں کے ہجوم سے جوشیلا خطاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ ویڈیوز میں نوجوان لڑکی کو گاڑی کے اوپر کھڑے ہوکر پُرجوش انداز میں مظاہرین سے نعرے لگواتے بھی دیکھا جاسکتا تھا۔
اس لڑکی کی حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد سوڈان کے بڑے شہروں، خصوصی طور پر دارالحکومت خرطوم میں مظاہروں میں نوجوانوں کی تعدادمیں اضافہ ہوا۔برطانوی میڈیا کے مطابق ابتدائی 2 دن تک انٹرنیٹ پر اس لڑکی کی تصاویر وائرل ہوتی رہیں اور اسے سوڈان کے ایک نئے لیڈر کے طور پر جانا جانے لگا۔ اس لڑکی کے حوالے سے کچھ تفصیلات سامنے آ چکی ہیں، اس نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایک نئی سیاسی لہر اور نوجوانوں میں بیداری کا باعث بنیں۔
اس لڑکی کی شناخت 22 سالہ آلاء صالح کے طور پر ہوئی ہے جو آرکیٹکچر کی طالبہ ہیں۔ آلاء صالح نے کہا کہ ان کی وائرل ہونے والی تصاویر 8 اپریل 2019 کو دارالحکومت خرطوم میں ہونے والے مظاہرے کے دوران اس وقت کھینچی گئی تھیں جب وہ مظاہرے میں شریک لوگوں کے ہجوم سے خطاب کر رہی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے نہیں ہے ، تاہم وہ سوڈان میں بہتری کے لیے سڑکوں پر آئیں اور لوگوں کے ہجوم میں شامل ہوکر نوجوانوں کا حوصلہ بڑھانے لگیں۔ساتھ ہی انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد انہوں نے مظاہرین کو مزید جوش دلوانے کے لیے تیاری کی اور انہوں نے مظاہروں کے دوران انقلابی شاعری پڑھنا اور نعرے لگوانا شروع کئے۔
اگرچہ بغاوت میں اس لڑکی کا براہ راست کوئی کردار نہیں، تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کی جانب سے مظاہروں میں نوجوان نسل کا جوش بڑھانے کی وجہ سے فوج نے آگے آنے کا فیصلہ لیا۔
30 سال تک حکومت کرنے والے صدر کے خلاف ان مظاہروں میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور رواں ماہ کے آغاز میں یہ مظاہرے پر تشدد ہو گئے اور گزشتہ ہفتے تک کم سے کم مظاہروں کے دوران 10 افراد کے ہلاک ہوجانے کی اطلاعات بھی آئیں۔ عمر البشیر نے 1989 سے سوڈان کا اقتدار سنبھالا ہوا تھا۔