Wednesday, April 23, 2025
Homeتازہ ترین خبریںنہرو یا چین نہیں بلکہ بی جے پی حکومت ذمہ دار

نہرو یا چین نہیں بلکہ بی جے پی حکومت ذمہ دار

- Advertisement -
- Advertisement -

  ہندوستان میں موجودہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے حکمران پلوامہ دہشت گرد حملے کے ماسٹر مائنڈ اور دہشت گرد مسعود اظہرکے متعلق گندی سیاست کر رہے ہیں اور اسے نہرو اور چین کی وجہ بتا رہے ہیں حالانکہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جس وقت مسعود اظہر کو غیر مشروط طریقہ پر رہا کیا گیا تھا اس وقت 1999 اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی۔ یہ ہی وہ بی جے پی کی حکومت تھی جس نے کئی معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے مسعود اظہر کو نئی زندگی دی۔

انڈین ایئر لائنز کے طیارے 814 کا وہ واقعہ آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے جس کو ہائی جیک کرتے ہوئے مسعود اظہر کی رہائی کا ڈرامہ انجام دیا گیا ہے اور یہ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں ہی پیش آنے والا واقعہ ہے ۔ دسمبر 1999 کو انڈین ایئرلائنز کا طیارہ نمبر 814 جو کہ کھٹمنڈو سے نیپال کے راستے دہلی آ رہا تھا اسے افغانستان کے مقام قندھار میں ہائی جیک کر لیا گیاتھا ۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ واقعہ کون بھول سکتا ہے جب ایک طیارے میں سوار مسافروں کی رہائی کے لئے ہندوستان میں واجپائی کی حکومت نے مسعود اظہر جیسے دہشت گرد کو غیر مشروط طریقہ سے رہا کر دیا تھا ۔

یہ وہی شخص ہے جس کو 2001 میں پارلیمنٹ پر حملے ، 2008 میں ممبئی دہشت گرد حملوں اور 2016 میں پٹھان کوٹ کے ایر فورس حملے کا قصوروار مانا جاتا ہے اور ہاں یہ بھی کہ حالیہ دنوں میں پلوامہ میں جو دہشت گرد حملہ ہوا اس کے پیچھے بھی اسی شخص کا ہاتھ ہے لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت اسے نہرو اور چین کی کارستانی بتاتے ہیں اس ضمن میں ارون جیٹلی کا حالیہ دعوی سفید جھوٹ سے کچھ کم نہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ سکیورٹی کونسل کی نشست کے تعلق سے نہرو نے چین کی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے ایسے حالات ہوئے ہیں۔

ارون جیٹلی کو چاہئے کہ وہ تاریخ کا درست مطالعہ کریں اور ملک کو یہ بتائیں کہ کس طرح مسعود اظہر کو انٹیلی جنس ایجنسی نے کانگریس حکومت میں 1994 کو گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں 1999 میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے غیر مشروط مذاکرات پر اسے رہا کر دیا۔ مسعود اظہر کو جس وقت غیر مشروط طریقے سے رہا کر دیا گیا تھا اس وقت ہندوستان میں آر ایس ایس کے نظریات اور لیڈروں کی حکومت تھی اور 1999 میں اٹل بہاری واجپائی اس کی قیادت کررہے تھے اور اس حکومت نے دہشت گرد کو تحفتاً اس کے قبیلے کے حوالے کردیا جس نے ہندوستانی فوج کے کئی سپاہیوں اور عام شہریوں کا قتل کیا ہے ۔

یہ وہیمسعود اظہر ہے جو ہندوستانی کشمیر میں داخل ہونے کے علاوہ 1990 سے لیکر 1994 تک وادی کشمیر میں امن و امان کی صورتحال بگاڑ رہا تھا لیکن کانگریس حکومت میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کامیابی کی بدولت اسے گرفتار کرتے ہوئے کوٹ بلوال جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ جموں میں اس کی قید کے دوران اس پر مقدمہ بھی چلایا جارہا تھا امید تھی کہ اسے پھانسی دی جائے گی لیکن حیران کن طور پر کرسمس کے موقع یعنی 24دسمبر 1999 کو انڈین ایئر لائنز کے طیارے کو ہائی جیک کیا گیا اور اس کے بدلے دہشت گرد مسعود اظہر کے ہمراہ دیگر دو دہشت گردوں کو رہا کیا گیا تھا ۔ مسعود اظہر کے ساتھ جو دیگر دو دہشت گرد رہا کیے گئے تھے وہ احمد عمر سعید شیخ اور مشتاق احمد زرخار تھا ۔ یہ وہی افراد ہیں جنہوں نے وادی کشمیر میں سینکڑوں لوگوں کو موت کی نیند سلا ئی ہے لیکن جیش محمد جیسی تنظیم کے مطالبہ پر انہیں غیر مشروط طریقے سے رہا کردیا گیا ۔

ان دہشت گردوں کی رہائی کا طریقہ کار بھی کسی فلمی کہانی سے کم نہیں کیونکہ انہیں کوٹ بلوال جیل سے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے طالبان کے زیر اقتدار قندھار لے جایا گیا ۔ ان دہشت گردوں کے ساتھ اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ بھی موجود تھے جو کہ آر ایس ایس کے پسندیدہ قائدین میں شمار کیے جاتے ہیں اس دہشت گرد کی رہائی کے بدلے31 دسمبر کو ہائی جیک طیارے کے مسافرین کو بھی رہائی ملی تھی لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول جو اس وقت انٹیلی جنس بیورو کے صدر بھی تھے، ان کی صدارت میں چار رکنی ہندوستانی ٹیم نے قندھار پہنچ کر دہشت گردوں سے تبادلہ خیال کیا تھا۔

اب بی جے پی حکومت چائن کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اسے مسعود اظہر کی تائید کرنے کا الزام دے رہے ہیں لیکن جیٹلی کے بیان سے قطع نظر حقائق کو اگر دیکھیں تو نہرو اور چین کی مخالفت سے زیادہ مودی حکومت چین کی دوستی میں کوئی کمی اور کسر نہیں چھوڑ رہی ہے کیونکہ اگر واقعی ہندوستان کو چین سے احتجاج کرنا ہوتا تو وہ بھی بیجینگ سے اپنے ہندوستانی نمائندوں کو ملک واپس طلب کرتا تھا لیکن اس کے برعکس ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی مختلف مقامات پر چین کے صدر سے نہ صرف ملاقات کر رہے ہیں بلکہ دوستانہ تعلقات بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

مسعود اظہر کے معاملے پر اگر ہندوستان کو چین سے اختلاف ہوتا تو بی جے پی حکومت بیجنگ کے نام اپنا احتجاج روانہ کرتا یا مکتوب لکھتے ہوئے اسے انتبا ہ دیتا لیکن اس کے برعکس تو بی جے پی حکومت چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں مصروف ہے ۔ دنیا کا طویل ترین مجسمہ جو کہ اسٹیچو آف یونیٹی کے نام سے مشہور ہے اور اس مجسمے سردار پٹیل کی تیاری ہندوستان میں نہیں بلکہ اسے تیار کرنے میں چین کی مدد حاصل کی گئی ہے ۔

چین جو کے ہندوستانی سرحد میں سینکڑوں میل پر قبضہ کر چکا ہے لیکن اس کے خلاف مودی حکومت کوئی احتجاج نہیں کرتی جون ۔2017 میں چین نے منسروور کے عقیدت مندوں کو روکا تھا ۔ چین سے لفظی مخالفت اور حقیقت میں اس کے ساتھ تجارتی تعلقات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مودی حکومت پیٹ یوگا پروجیکٹ کے لیے چین سے لاکھوں قالین خرید رہا ہے اس کے برعکس نہرو وہ شخص تھے جنہوں نے 1962 میں چین کے خلاف جنگ لڑی تھی لیکن مودی حکومت نہرو کو چین کا حمایتی قرار دیتی ہے حالانکہ مودی حکومت خود چین کی در انگیزی کے خلاف احتجاج نہیں کرتی بلکہ اس کے ساتھ تجارتی تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے خود کو حب الوطن کے طور پر پیش کر رہی ہے۔