نئی دہلی۔ رواں ٹی 20 ورلڈ کپ میں ہندوستان کی ابتدائی اہم مقابلوں میں ناکامی کے بعد کئی ماہرین کے تبصرے اور تجزیہ سامنے آرہے ہیں ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نیوزی لینڈ کے خلاف اوپنر روہت شرما کو ٹرینٹ بولٹ کے ان سوئنگرز سے بچانے کےلئے انہیں نمبر تین پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ روہت کو پاکستان کے خلاف کھیل میں بائیں ہاتھ کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کے خلاف دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا اورگولڈن ڈک ہوگئے جس کے بعد روہت کے مقام پر بائیں ہاتھ کے ایشان کشن کو روہت کے مقام پر روانہ کیا گیا تھا ۔
اس ضمن میں ہندوستان کے سابق اسپنراور سیلکٹر منندر سنگھ نے میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران اپنے تجزیے میں کہا اگر آپ کو اس (روہت) پر بائیں ہاتھ کے سیون گیند بازکا سامنا کرنے پر بھروسہ نہیں ہے، تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔اس معیار کے بیٹسمین کو جلد از جلد حالات سے خود کو ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے، جو اتنے سالوں سے نہیں ہوئی یہ تشویش ناک پہلو ہے۔ آپ کو روہت پر بھروسہ نہیں ہے حالانکہ وہ ٹوئنٹی 20 کرکٹ میں ہمارا اگلا کپتان بننے والا ہے۔منندر سنگھ کا اشارہ رواں ورلڈ کپ کے بعد کوہلی کے مقام پر روہت کو ٹی20 کرکٹ کا کپتان بنانے جانے کی طرف تھا۔آپ بغیر کسی بڑی وجہ کے روہت کا نمبر تبدیل نہیں کرتے کیونکہ یہی وہ نمبر ہے جہاں اس نے اپنے زیادہ تر رنز بنائے ہیں جبکہ کوہلی نے اپنے زیادہ تر رنز نمبر3 پر بیٹنگ کرتے ہوئے بنائے ہیں۔
منیندر سنگھ نے مزید کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیم گھبراگئی۔وہ خاص طور پر روی چندرن اشون کوقطعی گیارہ کھلاڑیوں سے باہر کرنے پر حیران ہیں، خاص طور پر جب آف اسپنراشون کو اس کے تجربے کے لیے سفید گیند کے اسکواڈ میں واپس لایا گیا تھا۔انہوں نے اس ضمن میں کہا کہ آراشون میری ٹیم میں تھے (نیوزی لینڈ کے خلاف مقابلے کے لیے)۔ میرے پاس تین اسپنر تھے، اور ہاردک پانڈیا کے بجائے میرے پاس شاردول ٹھاکرتھے۔ کیونکہ اگر ہاردک بولنگ نہیں کررہا ہے تو آپ اسے نہیں کھیلاسکتے۔ اگر کپتان یاکوچ یا کوئی بھی یہ کہتا ہے کہ وہ بیٹسمین کے طور پر بھی ٹیم کے لیے اچھا ہے، (یہ) بالکل غلط ہے۔
منیندر جو پہلے سلیکٹر بھی رہ چکے ہیں انہوں نے ہاردک کے متعلق یہ رائے دی۔انہوں نے مزید کہا کہ ورلڈ کپ کےلئے ٹیم کے منتخب ہونے کے وقت سے ہی غلطیاں ہوئی ہیں۔ آپ آر اشون کو یہ کہتے ہوئے (منتخب) لائے کہ انہیں تجربہ حاصل ہے۔ ساتھ ہی آپ نے دو کھلاڑیوں کو چھوڑ دیا جن کے پاس تجربہ تھا اور وہ شیکھر دھون اور یوزویندر چہل تھے۔ جو تم کہہ رہے ہو اورجوکر رہے ہو وہ متضاد ہے۔کوہلی کی کپتانی گزشتہ دو میچوں میں شدید تنقید کا نشانہ بنی ہے، جس میں ہندوستان کو پاکستان کے خلاف 10 وکٹوں اور نیوزی لینڈ کے خلاف آٹھ وکٹوں سے بھاری شکست ہوئی ہے۔ اس سے کوہلی اپنی کپتانی میں آئی سی سی کے ایک ایونٹ میں ایک اور ناقص کارکردگی کو درج کروا چکے ہیں۔
اب یہ خیال بھی عام ہوچکا ہے کہ کوہلی کوباہمی سیریز میں ٹیموں سے نمٹنا آسان لگتا ہے، کیونکہ ہر میچ میں یہی ٹیم ہوتی ہے، جب کہ وہ زیادہ ٹیموں والے ٹورنامنٹس میں کپتان کے طور پر وہ پریشان دکھائی دیتے ہیں جہاں ٹیم کو مختلف مقابلوں میں مختلف ٹیموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ منیندر نے اتفاق کیا کہ شبنم ایک عنصر رہا ہے ۔وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیںکہ یہ دونوں ٹیموں کے لیے یکساں ہے۔ جب میں 2 نومبر انگلینڈ بمقابلہ سری لنکا میچ دیکھ رہا تھا، تو ان کے کھلاڑی گیند کو خشک کرنے پر بہت محنت کررہے تھے۔ گیند کو خشک کرنے کے لیے تولیوں کو گیند پر رگڑا جا رہا تھا لیکن جب ہندوستانی مقابلہ دیکھا تو فیلڈنگ کے دوران قومی کھلاڑی ایسا کچھ نہیں کررہے تھے ۔