حیدرآباد ۔ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ریاست تلنگانہ میں 17 حلقوں پر 11 اپریل کو رائے دہی ہوئی لیکن رائے دہی کا تناسب انتہائی مایوس کن رہا حالانکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے رائے دہی کے بنیادی حق سے استفادہ کے لئے عوام میں شعور بیداری کے لئے کئی پروگرامس اور جلسے کئے گئے جس پر کروڑہا روپے خرچ کئے گئے لیکن اس کے باوجود دارالحکومت حیدرآباد میں رائے دہی کا تناسب مایوس کن رہا جس کی وجہ سے حیدرآبادیوں کو سوشل میڈیا پر مذاق کا موضوع بنایا جارہا ہے۔
چیوڑلہ، حیدرآباد، سکندرآباد اور ملکاجگری میں رائے دہی کا تناسب گزشتہ 15 برس میں سب سے کم رہا جس کے بعد خاص کر حیدرآبادیوں کو ”نواب“ کے خطاب سے مخاطب کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے طنز بھرے پوسٹ تحریر کئے ہیں جس میں کسی نے کہا کہ حیدرآبادیوں کو بریانی کھلائی جائے تو ہی وہ ووٹ ڈالنے آئیں گے۔ تو کسی صارف نے کہا کہ دلہا خود اپنی شادی میں رات 11 بجے کے بعد شادی خانہ کو پہنچتا ہے تو وہ دھوپ میں ووٹ ڈالنے کیوں آئے گا۔ کسی صارف نے کہا کہ حیدرآباد میں اگر رائے دہی رات کے 11 بجے سے فجر تک رکھی جاتی تو شاید صد فیصد سے زیادہ رائے دہی ہوتی تھی۔ کسی صارف نے کہا کہ حیدرآبادی نواب کہاں تیز دھوپ میں باہر نکل کر جمہوری اور بنیادی حقوق سے استفادہ کرنے والے ہیں اگر انہیں واٹس اپ یا فیس بک پر ووٹ ڈالنے کی سہولت دی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔
چیوڑلہ، حیدرآباد، سکندر آباد اور ملکاجگری میں بالترتیب 53.80، 39.49، 39.20 اور 42.75 فیصد ہی رائے دہی ہوئی ہے۔ 2014 میں حیدرآبادیوں نے 53.29 فےصد ووٹنگ کی تھی لیکن2019 میں صرف 39.49 فیصد ہی حیدرآبادیوں نے حق رائے دہی سے استفادہ کیا ہے۔ حالانکہ ان کے پسندیدہ اورمقامی قائدین تقریباً ہرجلسہ میں ووٹ کی اہمیت، ہندوستان کے موجودہ حالات اور زیادہ سے زیادہ حق رائے دہی سے استفادہ کرتے ہوئے امن دشمن قائدین اور سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی اپیل کرتے رہے لیکن حیدرآبادیوں نے11 اپریل کی دھوپ میں حق رائے دہی سے زیادہ گھر میں آرام سے تعطیل منانے میں زیادہ عافیت سمجھی۔
حیدرآباد میں حق رائے دہی کے تناسب میں کمی کی کئی ایک وجوہات بیان کی جارہی ہیں جس میں پہلے تو موسم گرما کی شدت کو سرفہرست تسلیم کیا گیا، حالانکہ صبح کے اوقات اور شام میں 3 بجے کے بعد سے ووٹرس زیادہ تعداد میں پولنگ بوتھ پہنچ سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دوسری طرف مقامی جماعت کے قائدین کی کامیابی کو یقینی جانتے ہوئے تقریباً رائے دہندگان نے گھر میں افراد خاندان کے ساتھ تعطیل منانے کو ترجیح دی۔ حیدرآباد کے برعکس سکندرآباد میں حالانکہ مقابلہ سہ رخی رہا جہاں بی جے پی کے کشن ریڈی، ٹی آر ایس کے تلسانی سائی کرن اور کانگریس کے انجن کمار یادو میدان میں ہیں لیکن اس مسابقتی سہ رخی مقابلہ کے لئے بھی سکندرآباد میں بھی رائے دہندگان نے زیادہ تعداد میں پولنگ بوتھ پہنچ کر ووٹ نہیں دیا۔