حیدرآباد ۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں لوک سبھا انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی پھر ایک مرتبہ ایسا نعرہ دیا ہے جو الفاظ کے اعتبار سے کافی پرکشش لگ سکتا ہے لیکن حقیقت اتنی آسان نہیں۔2014 کے انتخابات سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے پر لڑے گئے تھے اور اس نعرے کو ہندوستان کے انتہا پسند اور سیکولر پسند سبھی افراد نے پسند کرتے ہوئے بی جے پی کی حمایت کی تھی لیکن 2014 سے 2019 کی میعاد میں بی جے پی نے وکاس (ترقی) کا کوئی کام ہی نہیں کیا بلکہ ان پانچ برسوں میں ہندوستانی معیشت اور تہذیب و تمدن کو ایسے نقصانات پہنچائے جس کا ازالہ ناممکن ہے ۔ نریندر مودی نے گزشتہ انتخابات میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کا جو نعرہ دیا تھا وہ اکثر ناکام ہوا کیونکہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے جہاں ہندوستانی معیشت کو تباہ و برباد کیا گیا تو دوسری جانب ہجومی تشدد اورگاؤکشی کے نام پر اقلیتوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور اس میں بھی اکثریت مسلمانوں کی رہی جنہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
جون 2014 میں پونے کے 24 سالہ محسن شیخ کو موت کے گھاٹ اتارنے کا واقعہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے ایک مہینے کے اندر رونما ہونے والا افسوس ناک واقعہ تھا ، یہ ایک واقعہ نہیں جہاں مسلمانوں پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹا بلکہ یہ ایک کبھی ختم نہ ہونے والے ظلم کی داستان کا پہلا باب رہا کیونکہ اس کے بعد ہندوستان کے تقریبا ہر کونے میں میں کسی نہ کسی موضوع پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کئی نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جس میں خاص کر گاؤکشی کے نام پر مسلمانوں کو ہجومی تشدد کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنا ہندوستان کی ایک روایت بن چکی ہے ۔
بی جے پی کے 2014 میں برسر اقتدار آنے کے درپردہ بھی اس کے اقلیتوں کے خلاف ظلم کی داستانیں موجود ہے جس میں خاص کر 2002 گجرات فسادات ہیں کیونکہ یہی وہ فسادات تھے جس نے مودی کو ہندوؤں کے دلوں پر راج کرنے والا حکمران کے طور پر پیش کیا اور یہی وہ واقعات تھے جس نے ہندوستان میں بی جے پی کے حکومت کی راہ کو ہموار کیا ہے اگر یوں کہا جائے کہ اگر 2002 کے گجرات فسادات نہیں ہوتے تو شاید 2019 تک بی جے پی حکومت اور اقتدار کی کرسی پر فائز نہیں ہوتی۔ 2002 گجرات فسادات سے لے کر 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے تک اس کی ظلم و زیادتی کی ایک طویل داستان ہے جس کی وجہ سے ٹائم میگزین نے بھی اپنے حالیہ شمارے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ”ڈیوائیڈر ان چیف“ کا نام دیا ہے ۔
ٹائم میگزین نے وزیراعظم نریندر مودی کو یہ خطاب اس لیے بھی دیا کیونکہ انکے دورے حکومت میں اقلیتیں کمزور اور بے یارو مددگار بن کر رہ گئی ۔ مسلمانوں کے خلاف ہندوستان بھر میں منصوبہ بند طریقہ سے ظلم و زیادتی کے طریقے اختیار کیے گئے جس میں اگر صرف بنگال کا ہی تذکرہ کیا جائے تو یہاں بی جے پی نے پچاس ہزار سے زیادہ واٹس ایپ گروپس بنائے اور ان سوشل میڈیا گروپس کے ذریعے بنگلہ دیشی اور روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بی جے پی نے ہندوستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ بھی کئی ایک واقعات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے اور مسلمانوں کے خلاف اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی استعمال کیا ہے جس میں خاص کر کے اس نے فضائی حملے کو اپنے لئے اصل ہتھیار بنایا ۔ پاکستان کے خلاف جو فضائی کارروائی کی گئی تھی اس میں بی جے پی نے اپنی بہادری کے چرچوں کی تشہیر ہر گوشے میں کی لیکن اپوزیشن کانگریس نے جب اس فضائی کارروائی کی حقیقت اور اس کے اعداد و شمار کا مطالبہ کیا تو اس پر ملک سے محبت کا سوالیہ نشان لگا دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستان میں گزشتہ 47 برسوں سے معیشت کی تباہی ، کسانوں کی خودکشی اور بے روزگاری کے مسائل کو بھی پاکستان سے ہی جوڑاگیا ، کیونکہ کہ پاکستان کے خلاف موقف اختیار کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو بھی آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت سب پر عیاں ہے۔ ہندوستان کی جملہ آبادی میں مسلمان 15 فیصد ہیں جبکہ سرکاری ملازمتوں میں ان کی موجودگی صرف دو فیصد ہے جبکہ ہر گزرنے والے وقت کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمتوں میں ان کی نمائندگی مزید گھٹتی چلی جارہی ہے، یہی نہیں بلکہ قانون ساز اداروں اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں بھی ان کی نمائندگی کا گراف مزید نیچے گرتا جا رہا ہے۔
2014 تا 2019 کے دور اقتدار میں بی جے پی نے جو بڑے وعدے کیے تھے ان میں وہ انتہائی ناکام رہی جس کے باوجود ہندوستانی عوام نے انہیں پھر ایک مرتبہ حکومت کا موقع دیا ہے جس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک نیا نعرہ دیتے ہوئے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے بعد سب کا وشواس بھی کہا ہے لیکن مسلمانوں کا وشواس یا بھروسہ حاصل کرنا ان کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا ۔ ایک جانب وہ اپنے آقاؤں کے خلاف بالکل نہیں جا سکتے کیونکہ ان کے آقاؤں کا بنیادی نظریہ مسلمانوں کے خلاف ہی ہے اور خود وزیراعظم نریندر مودی مسلمانوں کے خلاف اپنے ہندو ووٹ بنک کو مضبوط کرتے ہوئے اقتدار کی کرسی پر پہنچے ہیں اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کا کام کرتے ہیں تو کس طرح وہ اپنے آقاؤں کے ساتھ اپنا تعلق بہتر بنا پائیں گے؟
یوگی آدیتہ ناتھ ، سادھوی پرگیہ اور گری راج جیسے کئی لیڈروں کو مسلمانوں کے خلاف تیار کر رکھا ہے ۔ سادھوی پرگیہ جو کہ انتخابات میں حصہ لینے سے پہلے مالیگاؤں دہشت گرد حملے کے مقدمے میں ماخوذ تھی انہیں نا صرف بھوپال کے پارلیمانی حلقے سے انتخابات لڑوایا گیا بلکہ وہ یہاں سے کامیابی بھی ہوئی ہیں ۔ انتخابات کے شاندار نتائج کے بعد بی جے پی صدر امیت شاہ کو وزیر داخلہ بنایا گیا حالانکہ وہ بھی سہراب الدین شیخ اور ان کی اہلیہ کو موت کے گھاٹ اتارنے کے مقدمہ میں مبینہ طور پر ملوث رہے ہیں۔ امیت شاہ کو ایک وقت سپریم کورٹ نے گجرات میں داخلے سے بھی روک دیا تھا ۔ اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف ظلم و زیادتی اور تشدد کی ایک نا ختم ہونے والی داستاں موجود ہے اور ان کاروائیوں کو انجام دینے والے لیڈروں کو بڑے عہدوں پر فائز کرتے ہوئے پہلے ہی اقلیتوں کے خلاف اپنے منصوبوں کو ظاہر کر دیا گیا ہے ۔
ان حالات میں وزیر اعظم نریندر مودی کا سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا جو نعرہ ہے وہ بھی ایک پروپیگنڈہ سے بڑھ کر کچھ نہیں دکھائی نہیں دیتا کیونکہ یہ الفاظ ادا کرنا کافی آسان ہے لیکن ان پر عمل آوری انتہائی مشکل ترین اور سخت امتحان سے گزرنے کے مترادف ہے جو وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے آسان نہیں ہوگا ۔ الغرض یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وزیر اعظم نریندر مودی 2014 میں کئے گئے وعدوں کو مکمل نہیں کر پائے وہ کس طرح 2019 کے وعدوں کو پورا کر پائیں گے؟