اطہر معین
انسانی زندگی پر مقامی معاشرہ کے اثرات سے متعلق بہت سی تاویلیں اور منطق پیش کی جاتی ہے اور تقریباً سبھی نے یہ باور کرلیا کہ مقامی معاشرہ کے رسوم و رواج سے چھٹکارہ پانا مشکل ہے اور ایسے معاملات جن سے ایمان میں فرق نہیں پڑتا ان کے انجام دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے مگر بھول جاتے ہیں کہ ہم یہ دعویٰ کرتے بھی نہیں تھکتے کہ اسلام ایک آفاقی اور فطری دین ہے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تاقیامت انسانی زندگی کے ہر لمحہ میں قرآن مجید اور اسوہ حسنہ سے رہنمائی ملتی رہتی ہے۔ پھر ہم اپنی زندگی میں ان امور کو جن کی دلیل اسوہ حسنہ سے نہیں ملتی انجام دیتے ہوئے عار کیوں محسوس نہیں کرتے؟ اللہ رب العزت نے اپنے آخری رسول و نبی کی بعثت کیلئے سرزمین عرب کا انتخاب کیا اور بلاشبہ اسلامی طرز معاشرت کا جو ڈھانچہ بنا ہے اس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے ہم یہ حجت پیش نہیں کرسکتے کہ جن معاملات کا تعلق دین اور ایمان سے نہیں ہے اس میں ہم کو کوئی بھی طرز معاشرت اختیار کرنے کا حق ہے۔ اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اغیار کی بہت سی رسومات کو اپنالیا ہے۔ خاص کر نکاح کی محافل کو ہم نے توہمات اور خرافات سے پرکردیا ہے۔ نکاح سے جڑی رسومات میں ہمارے معاشرہ پر سب سے برے اثرات جن سے پڑرہے ہیں ان میں سانچق اور مہندی کی رسومات ہیں۔ یہ رسومات نہ صرف غیر ضروری اور بیجا ہیں جن میں نہ صرف لڑکی والوں پر مالی بوجھ پڑتا ہے اور دوسری اقوام کے طور طریق اختیار کرنے کے گناہ کا بھی ارتکاب ہوتا ہے بلکہ ان دو تقاریب میں جو بیہودگیاں ہوتی ہیں ایک صالح معاشرہ میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ حالیہ چند دہوں سے مسلمانوں میں جدیدیت اور ترقی پسندی کا عنصر بہت زیادہ پروان چڑھنے لگا ہے اور اس کے نتیجہ میں ہم شرعی حدود کو بھی پھلانگنے لگے ہیں اور شریعت کی رو گردانی کو ہمارے بزرگ اور طبقہ علماء و مشائخین بھی برداشت کرنے لگے ہیں۔ سانچق کی رسم کہنے کو تو صمداوے کا تعارف و ملن ہے مگر اس میں حقیقتاً محرم اور غیر محرم اور جنس کی تمیز کے بغیر دو خاندانوں کے اجنبی افراد کا اختلاط ہوتا ہے۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور صحابہ میں نکاح کی تقریب میں لڑکی والوں کی جانب سے طعام کے نظم کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور نہ ہی اس جانب کوئی اشارہ ملتا ہے مگر ہم نے نہ صرف عقد نکاح کی محفل کے موقع پر لڑکی والوں پر مہمانوں کے طعام کا بوجھ ڈال دیا ہے بلکہ رشتہ کے انتخاب سے لے کر محفل عقد نکاح تک منعقد ہونے والی ہر محفل پر مہمانوں کی ضیافت کا بوجھ ڈالتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں یہ تصور آگیا ہے کہ کسی کی بیٹی کو اپنی بہو بناتے ہوئے ان پر احسان عظیم کیا جارہا ہے اس لئے نہ صرف عاقد بلکہ اس کے خاندان کے ہر فرد کی آؤ بھگت کی جائے ۔ سانچق کے موقع پر جب لڑکے والے بری لے کر پہنچتے ہیں توان کا شاہانہ استقبال کیا جاتا ہے اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ سانچق کے موقع پر جوڑے گھوڑے کے نام پر لڑکی والوں سے لی گئی نقد رقم سے لڑکی اور لڑکے کے لئے خریدے گئے زیورات ‘ ملبوسات‘ بری کی اشیاء اور پھول وغیرہ لڑکے والے بڑے ہی طمطراق کے ساتھ کشتیوں میں سجاکر لے آتے ہیں۔ کشتیوں کی مخصوص تعداد کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس موقع پر ان اشیاء کی نمائش بھی کروائی جاتی ہے اور طرفین کے ویڈیو گرافرس اس تقریب میں شریک سبھی لوگوں کے ساتھ ان بے جان اشیاء کو بھی کیمرے کی آنکھ میں بند کرلیتے ہیں تاکہ وقت ضرورت کام آوے۔ لڑکی کو لڑکے کے خاندان کی عورتوں کی جانب سے زیورات پہنائے جاتے ہیں اور عقد نکاح کے موقع پر زیب تن کی جانے والی ساڑھی اوڑھائی جاتی ہے اور مہندی اور صندل کے لیپ لگائے جاتے ہیں اور پھر پھول کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ آخر میں دونوں خاندانوں کے افراد کی جانب سے پیسے وارے جاتے ہیں۔ ہماری خواتین اس بات کا خاص خیال رکھتی ہیں کہ لباس کا رنگ زرد رہے۔ اس تقریب میں شرکت کے لئے خوب بناؤ سنگھار کیا جاتا ہے اور اونچے گھرانوں کی عورتیں تو بیوٹی پارلرس جاکر مصنوعی طریقوں سے اپنی خوبصورتی میں چار چاند لگا آتی ہیں جس کیلئے وہ ایک موٹی رقم خرچ کرڈالتی ہیں۔ یہ تمام امور بالکلیہ طور پر غیر اسلامی ہیں اور ان سے پرہیز کرنے میں ہی عاقبت اچھی ہے۔ یہ تقریب تقریباً نصف شب تک جاری رہتی ہے۔ لڑکے والوں کی واپسی کے بعد لڑکی والے لڑکے کے گھر جانے کی تیاری کرتے ہیں۔ سانچق میں جو لباس پہنا جاتا ہے اس کو بدل دیا جاتا ہے اور مہندی کی رسم کیلئے لباس کا مخصوص رنگ سبز ہوتا ہے۔ لڑکی والے محفل عقد نکاح کے موقع پر لڑکے کے لباس کو جو لڑکے والے اپنے ساتھ لے آتے ہیں اس کو واپس لے جاتے ہیں اور اپنی طرف سے اندرون جامہ کا اضافہ کرلیتے ہیں۔ لڑکی والے جب لڑکے کے گھر پہنچتے ہیں تو اکثریہ رات کا آخری پہر ہوتا ہے۔ لڑکی والوں کی آمد کا سب سے زیادہ انتظار لڑکے کے خاندان کے بے نکاحے نوجوانوں کو ہوتا ہے چونکہ ان میں زیادہ تر لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس موقع پر لڑکے (دولھے) کو لڑکی (دلہن) کی بہن؍بہنیں مہندی لگاتی ہیں اور انگلی پکڑتی ہیں۔ انگلی چھوڑنے کیلئے لڑکے سے رقم کا مطالبہ ہوتا ہے۔ یہ تقریب دو گروپوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک گروپ لڑکے کا طرفدار بن جاتا ہے اور دوسرا گروپ لڑکی کی بہن؍بہنوں کا طرفدار بن جاتا ہے۔ اب ہونے والے بہنوئی اور سالی؍سالیوں کے ساتھ ساتھ دونوں گروپوں میں اصرار وتکرار اور نوک جھونک شروع ہوجاتی ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے فقرے بازیاں ہونے لگتی ہیں اور چھچھورے پن کا خوب مظاہرہ ہوتا ہے۔ عقد نکاح سے قبل اور بعد بھی بہنوئی اور سالی اس وقت تک ایک دوسرے کے لئے نامحرم ہوتے ہیں اور ان دونوں کا ایک دوسرے کو چھونا بھی گناہ ہے۔ اس کے علاوہ عورتوں اور مردوں کے اختلاط اور نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کے جو خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں ان سے سب ہی واقف ہیں۔ اگر ہم فوری ان رسومات کو ختم نہیں کریں گے تو وہ دن بہت جلد آنے والے ہیں جب ہمیں نکاح سے متعلق ایسی تقریبات منعقد کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا چونکہ ان دو تقریبات میں ایک دوسرے سے آشنا ہوجانے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں عشق میں مبتلا ہوکر خاندان کے بڑوں کی مرضی کے بغیر چوری چھپے نکاح کرلیں گے یا پھر کورٹ میریج کرنے لگیں گے۔ قبل اس کے ایسی نوبت آجائے ہر خاندان کو اس جانب توجہ کرنی چاہئے۔