حیدرآباد : تلنگانہ اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ٹی ایس آر ٹی سی) ملازمین کی جانب سے اپنے مطالبات کو لیکر کی جارہی ہڑتال آٹھویں دن میں شامل ہو گئی ہے۔یہ ملازمین اپنی دیگر کئی مانگوں کے ساتھ ساتھ،آرٹی سی محکمہ کو ریاسی حکومت میں ضم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں،جبکہ ریاستی حکومت ان کے اس مطالبہ کو ماننے سے انکار کر رہی ہے،اورملازمین کی اس ہڑ تال کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ملازمین پر برہمی کا اظہار کر رہی ہے۔
اسی برہمی کے تحت پچھلے ہفتہ ریاستی وزیر اعلیٰ نے ہڑ تال کر رہے 48ہزار سے زائد ملازمین کو ملازمت سے بر طرف کردیا ہے۔کیونکہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت کے بعد بھی ان ملازمین نے خدمات پر واپس لوٹنا گوارا نہیں کیا،جس کے نتیجے میں انہیں نوکری سے ہی بر طرف کر دیا گیا۔
اطلاع کے مطابق تقریبا 50ہزار ملازمین ہڑتال پر تھے،اور وزیر اعلیٰ کی کام پر واپس لوٹنے کی اپیل پر صرف 1200ملازمین ہی واپس لو ٹے،جس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے باقی ہزاروں ملازمین کو نوکری سے بر طرف کر دیا۔ان کے اس فیصلے کے بعد ملازمین کے احتجاج میں مزید سختی آگئی ہے۔اور ان کی ہڑ تال نویں دن میں شامل ہو گئی ہے،جو پچھلے نو روز سے اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے ہڑ تال پر ہیں۔
واضح ہو کہ تلنگانہ اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ملازمین نے ان کے مطالبات کا تجزیہ کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے تشکیل شدہ آئی اے ایس عہدیداروں کی سہ رکنی کمیٹی سے جے اے سی کی بات چیت ناکام ہوجانے،اور حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس وعدہ نہ کئے جانے کے بعد،4اکٹوبر کی نصف شب سے اپنی غیر معینہ مدت کی ہڑ تال کا آغاز کیا۔جس میں پچاس ہزار ملازمین نے حصہ لیا۔
تلنگانہ آر ٹی سی جے اے سی کے صدر نشین اشواتھاما ریڈی نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ملزمین کے مطالبات کی یکسوئی کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا،جس کے نتیجے میں ہمارے پاس ہڑ تال کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
دوسری طرف ریاستی حکومت نے ٹی ایس ؤر ٹی سی کے ملازمین کی ہر تال کا سخت نوٹ لیتے ہوئے5 اکٹوبر ہفتہ کے روز یہ اعلان کیا تھا کہ ”شام 6بجے تک ڈیوٹی پر واپس آنے والے آر ٹی سی ورکرس کو ہی ملازمین تصور کیا جائے گا اور دیگر کی ملازمتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
اور کہا کہ اب ملازمین کی یونینوں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے اے سی) کے ساتھ مزید کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔پھر وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے عوام کو ہڑتال سے ہونے والی پریشانیوں سے بچانے کے لئے تقریبا 2600بسیں کرائے پر حاصل کرنے کے لئے ہدایت دی۔اور خانگی ڈرائیورس کی خدمات حاصل کرتے ہوئے بسیں چلانے کا منصوبہ بنایا۔ساتھ ہی ہڑ تالی ملازمین کو شام تک خدمات پر واپس آنے کو کہا گیا۔
ریاستی حکومت کی جانب سے ملازمین کو ملازمت سے برطرف کرنے کی واضح دھمکی کو نظر انداز کرتے ہوئے ریاست کے پچاس ہزار آر ٹی سی ملازمین نے غیر معینہ مدت کی ہڑ تال شروع کی۔جس کے نتیجے میں پوری ریاست میں عوام کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔اور تہواروں کے اس موسم میں عوام نجی گاڑیوں،آٹوز اور ٹرین کے ذریعہ سفر کرتے دیکھے گئے،لیکن انہیں آڑ ٹی سی کی ہڑ تال سے کافی پریشانی ہوئی۔
اس غیر معینہ مدت کی ہڑ تال میں آر ٹی سی ملازمین کی 10ہزار یونینیں،بشمول ٹی ایم یو،اسٹاف اینڈ ورکرس فیڈ ریشن،ملازمین یونین،نیشنل مزدور یونین حصہ لے رہی ہیں۔وہ آر ٹی سی کو حکومت میں ضم کرنے،تنخواہوں پر نظر ثانی کرنے اور مخلوعہ جائیدادوں کو پر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس ہڑ تال کے پہلے دن ریاست کے مختلف علاقوں میں حالت کشیدہ ہو گئے،خانگی ڈرائیورس پر ہڑ تالی ملازمین نے سنگ باری کی۔اور کچھ مقامات پر سڑک حادثے بھی ہوئے۔
تلنگانہ حکومت کی جانب سے ہفتہ کی شام تک نوکری پر واپس لوٹنے کی ہدایت کے با وجود ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑ تال جاری رہنے پر سخت بر ہمی کا اظہار کرتے ہوئے اتوار 7اکٹوبر کو وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے اس ہڑ تال کو غیر منصفانہ جرم قرار دیا اور ٹی ایس آر ٹی سی کے 48ہزار سے زائد ملازمین کو بر طرف کرنے کااشارہ دیا۔اور وزیر اعلیٰ کے دفتر کی جانب سے بتایا گیا کہ،1200ملازمین ہی کام پر واپس لوٹے ہیں،وہی ملاز م کے طور پر باقی رہیں گے۔اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے باقی لوگوں کو بر طرف کر دیا ہے۔
حکومت کے اس سخت فیصلے کے بعد جہاں ہڑ تال کر رہے ملازمین نے ناراضگی کا اظہار کیا،وہیں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے اس فیصلہ پر سخت تنقید کی۔کانگریس کے سینئیر رہنما اور سابق وزیر محمد علی شبیر نے ٹی ایس آر ٹی سی کے ہڑ تال کرنے والے 48ہزار سے زائد ملازمین کو نوکری سے بر طرف کرنے کے حکومت کے فیصلے پر وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ کی جم کر سر زنش کی،انہوں نے کاما ریڈی میں مظاہرہ کرنے والے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اس فیصلے کو ہر گز بر داشت نہیں کیا جائے گا،کیونکہ آر ٹی سی عملے کا جمہوری حق ہے کہ وہ اپنے ماطالبات کو منوانے کے لئے احتجاج کریں۔انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی ملازمین کے مطالبات کی تکمیل تک ان کی مدد کرے گی۔
دوسری طرف وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے ملازمین کو بر طرف کرنے سے متعلق ان پر اپوزیشن جماعتوں کی تنقیدوں پر کہا کہ ”حکومت کو دوسروں کو بر طرف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،وہ خود اپنے طور پر چلے گئے ہیں،چونکہ انہوں نے ان کو دی گئی ڈیڈ لائن کے اختتام سے قبل ڈیوٹی پر واپس نہیں لوٹے،اس لئے انہوں نے خود کو بر طرف کر لیا ہے۔حکومت اور آر ٹی سی نے جو اپیلیں کیں ان پر انہوں نے کو ئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اور بر طرف ہوگئے۔
اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر تلنگانہ مزدور یونین ای اشوا تھا ما ریڈی نے کہاکہ،احتجاجی ورکروں کو حکومت یا آر ٹی سی کی جانب سے بر طرفی یا معطلی کی کوئی نوٹس موصول نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں قوانین ہیں اور ہمیں قوائد کے مطابق مقرر کیا گیا ہے۔وہ اپنی مرضی کے مطابق ہمیں علیحدہ نہیں کر سکتے۔یونین لیڈر نے کہا کہ یہاں عدالتیں ہیں،اگر ضروری ہوتو ہم عدالتوں سے رجوع ہوں گے۔
اس کے بعد ہڑ تال میں شدت پیدا کی گئی۔ مقامی لوگوں اور مختلف ریاستوں سے آنے والے مسافرین کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس ہڑ تال کے سبب ایم ایم ٹی ایس ٹرینوں،میٹرو خدمات،آٹوز،اور کیبس پر مسافروں کو انحصار کرنا پڑا۔آر ٹی سی ملازمین کی اس ہڑ تال پر ریاستی وزیر زراعت سنگی ریڈی نرنجن ریڈی نے کہا کہ آر ٹی سی یونین کے قائدین ایک خفیہ ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں۔
ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے آر ٹی سی ملازمین کو مراعات اور سہولتیں دی ہیں،اس کے علاوہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد وزیر اعلیٰ کے سی آر نے ان کی تنخواہوں میں بھی غیر معمولی اضافہ کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ آر ٹی سی ملازمین غیر ضروری مطالبات کے تحت ہڑ تال کرکے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مارلی ہے۔
نرنجن ریڈی نے کہا کہ آر ٹی سی ملازمین کے مطالبات کو قبول کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے،انہوں نے اپوزیشن پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تہوار کے موقع پر عوام کو مشکلات میں ڈالنے والے ملازمین کو سمجھا کر ڈیوٹی پر رجوع کر وانے کے بجائے اپوزیشن جماعتیں،بی جے پی اور کانگریس،آگ میں تیل دالنے کی کو شش کر رہے ہیں۔
آر ٹی سی ملازمین کی ہڑ تال سے حیدرآباد و تلنگانہ کے دوسرے علاقوں میں عوام کو پریشانی ہو رہی ہے۔روزانہ بسوں کا استعمال کرنے والے مسافرین کو اس ہڑ تال کی وجہ سے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
آر ٹی سی ملازمین کی اس ہڑ تال سے تہواروں کے موقع پرجہاں عوام کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،وہیں اسکول و کالج کے طلباء کو بھی کافی دقتیں اٹھانی پڑ رہی ہیں۔حیدرآباد کے دو بڑے بس اسٹیشن مہاتما گاندھی بس اسٹیشن اور جوبلی بس اسٹیشن سنسان دکھائی دے رہے ہیں۔ریاست بھر میں 10400بسیں ڈپوز میں رکی ہو ئی ہیں،محکمہ آر ٹی سی عارضی ڈرائیوروں اور دوسرے ملازمین کی مدد سے بسیں چلا رہے ہیں۔
اس دوران وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ کی جانب سے ملازمین کو برطرف کئے جانے کا انتباہ دئے جانے کے بعد ملازمت سے بر طرفی سے خوفزدہ ایک آر ٹی سی ڈرائیور کے علاوہ آر ٹی سی کی کاتون ملازمہ کے شوہر کی دل کا دورہ پڑنے سے موت ہوگئی۔پولیس کے مطابق دونوں واقعات سنگا ریڈی ضلع کے مختلف علاقوں میں پیش آئے۔بتایا گیا ہے کہ ضلع کے رامچندر اپورم کے رہنے والے آر ٹی سی ڈروئیور 48سالہ شیخ خلیل میاں،جو ایچ سی ڈپو سے وابستہ تھے۔ملازمت سے بر طرفی کے خوف سے اچانک دل کا دورہ پڑ نے سے انتقال کر گئے۔جبکہ دوسرے واقعہ میں آر ٹی سی کی ملازمہ ناگا رانی کا مایوسی کیے عالم میں دل کے دورے سے موت ہو گئی۔
آر ٹی سی ملازمین کی ہڑ تال نویں دن میں شامل ہو گئی ہے۔ریاستی حکومت نے ملازمین کی ہڑ تال کے پیش نظر تمام تعلیمی اداروں بشمول اسکولوں،جو نئیر کالجس،کمپوزٹ ڈگری کالجس کے لئے دسہرہ کی تعطیلات میں 19تاریخ تک توسیع کعنے کا اعلان کیا ہے۔جن میں خانگی،سرکاری،امدادی،جونئیر،ڈگری،پالی ٹیکنک کے بشمول انجئنئیرنگ،لا،ایم بی اے،ایم سی اے،فارمیسی اور میڈیکل کالجس کو چھوڑ کر یونیورسٹی کالجس شامل ہیں۔
ساتھ ہی وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے کہا ہے کہ آئندہ چار دن میں آر ٹی سی کی صد فیصد بسوں کو چلایا جائے گا۔طلباء کو دشواریوں سے بچانے کے لئے سرکاری اور خانگی تعلیمی اداروں کے تعطیلات میں 19اکٹوبر تک توسیع کی جا رہی ہے۔
الغرض آر ٹی سی ملازمین کی ہڑ تال سے عوام پریشان ہیں،اب دیکھنا ہے کہ حکومت اور ملازمین کے درمیان کی یہ ضد کیا موڑ لیتی ہے،ویسے اپوزیشن جما عتیں،حکومت کے خلاف آر ٹی سی ملازمین کا ساتھ دے رہی ہیں۔اور اس مسئلہ کو بھر پور سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔