Monday, June 9, 2025
Homeٹرینڈنگپارلیمنٹ میں مذہبی نعروں کا مقابلہ

پارلیمنٹ میں مذہبی نعروں کا مقابلہ

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی ۔ ہندوستان میں 17ویں لوک سبھا انتخابات جس میں زعفرانی جماعتوں کو سادہ اور شاندار اکثریت حاصل ہوئی جس کی بدولت نریندرمودی دوسری معیاد کےلئے ہمارے ملک کے وزیر اعظم بنے لیکن پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس اور اس اجلاس کے دوران نو منتخب ارکان پارلیمنٹ کے حلف لیتے وقت جو مناظر ساری دنیا نے دیکھے اس کا ماضی میں ثبوت تو درکنار خیال بھی کیا جاتا تو شاید اسے ہندوستان کے ساتھ ایک اور ظلم سے تعبیر کیا جاتا۔ پارلیمنٹ جس کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہئے تھا اس میں جے شری رام ،اللہ اکبر،جے بھیم اور دیگر نعرے گنجنے لگے ۔ جمہوری اقدار کی حفاظت کادعویٰ کرنے والے اورعوام کو حب الوطنی کا سبق پڑھانے والے اتنے مایوس اور احساس کمتری کا شکار کیوں ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے جمہوریت کو علی الاعلان پیروں تلے کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ان کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ 17ویں لوک سبھا کے اجلاس کے آغاز کے موقع پر جب نو منتخب اراکین پارلیمنٹ کو لوک سبھا میں حلف دلایا جارہا تھا تب عوامی نمائندے ملک کی حفاظت اور ترقی کی قسم کھانے کے ساتھ ہی متنازعہ نعرے لگا کر انتہا پسندی کا مظاہرہ کرکے صاف طور پر اقلیتوں کا مذاق اڑا رہے تھے۔

پارلیمنٹ میں جہاں سماج کے ہر طبقے کے افراد موجود تھے وہاں متنازعہ مذہبی نعرے لگا کرحکمراں پارٹی اور اس کے حلیفوں نے دیگر پارٹیوں کے اراکین کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کیا لیکن اس موقع پرمسلم اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور انتہا پسندوں کی سازش کا شکار نہیں ہوئے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب خود وزیراعظم نریندر مودی ایک دن پہلے کہتے نظر آئے تھے کہ پارلیمنٹ میں بڑی تعداد میں نئے چہرے آئے ہیں تو ان کی نئی سوچ سے ہی نئے ہندوستان کی تعمیر ہوگی۔ مودی نے کہا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ نیا ہندوستان نئی سوچ کے ساتھ بنے لیکن وزیراعظم نریندرمودی کی پارٹی کے ہی ارکان پارلیمنٹ نے ایوان زیریں میں ایسے کردار کا مظاہرہ کیا جس سے نئے ہندوستان کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔ لوک سبھا میں ہونا تویہ چاہیے تھا کہ نو منتخب عوامی نمائندوں سمیت سبھی اراکین بیک آواز یہ قسم کھاتے کہ ہم اپنی معیاد اقتدار میں نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے، خواتین کی حفاظت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کریں گے لیکن جب حیدرآبادی رکن پارلیمنٹ جب حلف لینے کے لئے آئے تو بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ نے وندے ماترم اوربھارت ماتا کی جے کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔

 بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ کو بھارت ماتا تبھی کیوں یاد آئیں، جب مسلم رہنما حلف لینے کے لئے کھڑے ہوئے؟ کیا وہ انہیں اس نعرے سے مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے تھے؟ کیا وہ یہ پیغام دے رہے تھے کہ مسلم اراکین بھارت ماتا سے چڑتے ہیں؟ کیا اپنے عمل سے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے سے اس ملک کے اقلیتوں کو پرہیز ہے؟ حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین  اویسی  جب حلف لے رہے تھے تو وزیر اعظم مودی ایوان میں نہیں تھے، لیکن اگر ہوتے بھی تو کیا وہ اپنے ارکان پارلیمنٹ کو ایسی حرکت کرنے سے روکتے؟ کیا وہ انہیں یاد دلاتے کہ محض چند ہی دن پہلے انہوں نے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے بعد بی جے پی کا نعرے ،سب کا ساتھ، سب کا وکاس میں سب کا وشواس بھی جوڑا ہے؟ کیا بی جے پی دوسروں کو مشتبہ ثابت کر کے دوسروں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کر کے ہی وشواس جیتنے میں بھروسہ کرتی ہے؟۔

 بھگوا اراکین کی نعرے بازی کے درمیان حیدرآبادی رکن پارلیمنٹ  اسدالدین  اویسی  نے بھی حلف لینے کے بعد نعرہ تکبیر بلند کیا اور ساتھ میں جے ہند  بھی جوڑ دیا۔ اس طرح ان کی طرف سے حساب برابر ہو گیا۔  وندے ماترم، اوربھارت ماتا کی جے ایک طرف ہو گئے اور اللہ اکبر اور جے ہند دوسری طرف۔ آخر اویسی کو بھی یہ تقسیم شدہ سیاست اتنی ہی راس آتی ہے، جتنی سنگھ پریوار اور بی جے پی کو، دونوں کی سیاست اسی طرح چلتی ہے۔اس کے کچھ دیر بعد حلف لینے آئیں ہیما مالنی نے رادھے-رادھے کرشنم وندے جگت گرو  کا نام لیا۔ ان سب کے ایک دن پہلے پرگیہ ٹھاکر نے سنسکرت میں حلف لیتے ہوئے اپنے باپ کا نام نہ لے کر اپنے گرو کا نام شامل کر لیا تھا جس پر اراکین نے اعتراض کیا اورعبوری اسپیکر کی ہدایت پر پرگیہ کو صحیح حلف لینا پڑا۔ ایک طرح سے دیکھیں تو یہ بہت بڑی باتیں نہیں ہیں، آپ انہیں نظر انداز کر سکتے ہیں۔ آخر اس ملک نے اظہار رائے کی جو آزادی دی ہے، اسی کا یہ بھی حصہ ہے کہ لوگ اپنے حلف میں باقی اقدار پر عمل کرتے ہوئے اپنے عقائد کا بھی اظہار کر سکیں۔ یہ تب تک ہے جب تک محض عقائد کے اظہار تک محدود ہو لیکن جب کسی کو چڑانے یا مشتعل کرنے کی نیت سے نعرہ لگایا جائے تو اس سے جمہوریت کے مرکزی ہال سے نفرت اورانتہا پسندی کو پیغام دینا سمجھا جائے گا۔

ہماری پارلیمنٹ کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس میں ملک کا تنوع جھلکتا ہے۔ طرح طرح کے لوگ طرح طرح کی پوشاکوں اور طرح طرح کے انداز سے پارلیمنٹ آتے ہیں، اپنی اپنی زبانوں میں حلف لیتے ہیں۔ حالانکہ اس میں بھی آہستہ آہستہ ہندی کے علاوہ انگریزی میں حلف لینے کا چلن بڑھتا گیا ہے۔ لیکن مسلم رکن کی حلف برداری پر جب آپ بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگانے شروع کرتے ہیں تومسلم رکن کا نہیں بلکہ بھارت ماتا کی توہین کر رہے ہوتے ہیں۔ وندے ماترم سے بھارت ماتا کو جوڑنا بھارت ماتا کو چھوٹا کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وندے ماترم آزادی کی لڑائی کے دور میں اہم گیت رہا ہے لیکن وندے ماترم کو لے کر ایک طبقہ اپنا اعتراض رکھتا رہا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ بی جے پی لیڈروں کو یہ احساس بھی نہیں ہے کہ ان کی سیاست سب سے پہلے ان علامات کو چھوٹا بنا رہی ہے جو اس ملک میں سب کومنظور اورعام چلن میں رہے ہیں۔ رام سے کسی کو عداوت نہیں ہے لیکن جے شری رام کا نعرہ جب ایک جارحانہ سیاست کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے تو رام اچانک دوسروں کو ڈرانے لگتے ہیں۔ بھارت ماتا احترام کا موضوع ہے لیکن جب کسی لیڈر کے حلف لیتے وقت ایک ہتھیار کی طرح اس کا استعمال ہوتا ہے تو وہ شائد بے بس دیکھتی رہ جاتی ہوگی۔ حکمراں بی جے پی اور اس کے حلیف اپنے جمہوریت مخالف طرزعمل سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، اسے بتانے یا لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن ہم نے اپنی جمہوریت سے جوسبق سیکھا ہے وہ اقدارکی حفاظت ہے اورہم ہمیشہ اسی سبق کو دہراتے رہیں گے۔