Monday, June 9, 2025
Homeٹرینڈنگپرتاپ گڑھ حلقے کے مسلمانوں کے سامنے کوئی بہتر قائد نہیں

پرتاپ گڑھ حلقے کے مسلمانوں کے سامنے کوئی بہتر قائد نہیں

- Advertisement -
- Advertisement -

 پرتاپ گڑھ ۔ اتر پردیش کے پرتاپ گڑھ پارلیمانی حلقے کے انتخاب کیلئے میدان میں خصوصی وآزاد سمیت جملہ 8 امیدوار ہیں اوریہاں 2014 کے انتخابات میں بی جے پی واپنادل ایس اتحاد سے اپنادل امیدوار ہربنش سنگھ مودی لہرکا بھر پور فائدہ اٹھا کر کامیاب ہوئے تھے ۔ ان کے قریبی حریف بی ایس پی کے امیدوارآصف نظام الدین صدیقی دوسرے کانگریس تیسرے وسماج وادی پارٹی چوتھے مقام پر تھی ۔ گزشتہ انتخاب میں سماج وادی پارٹی و بی ایس پی کے بیشتر ووٹ بی جے پی کے کھاتہ میں گئے تھے ۔ اس مرتبہ سیکولر پارٹیوں خصوصی طور سے سماج وادی پارٹی ، بی ایس پی و لوک دل اتحاد سے بی ایس پی کے ذریعہ دلت پسماندہ و مسلم کے برعکس برہمن طبقے کو ٹکٹ دیئے جانے سے مسلم رائے دہندگان خاموش اور تذبذب میں ہیں کہ سیکولر پارٹیوں میں کوئی امیدوار بہتر شبیہ کا نہ ہونے کے سبب وہ کس کو ووٹ دیں ؟

پرتاپ گڑھ پارلیمانی نشت سے خصوصی طور سے اتحاد سے بی ایس پی امیدوار اشوک ترپاٹھی،کانگریس سے راج کماری رتنا سنگھ ، جن ستہ دل سے اکشئے پرتاپ سنگھ گوپال جی و بی جے پی سے سنگم لال گپتا سمیت 8 امیدوار میدان میں ہیں جس میں کانگریس کی رتنا سنگھ اس نشت پر تین مرتبہ و اکشئے پرتاپ گوپال جی سماج وادی پارٹی سے ایک مرتبہ رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں ۔ اکشئے پرتاپ سنگھ گوپال جی اس مرتبہ راجا بھیاءکی پارٹی جن ستہ دل کے امیدوار ہیں ۔

 2014 کے پارلیمانی انتخاب کے اعداد شمار کے بموجب بی جے پی اپنا دل ایس اتحاد سے اپنادل ایس امیدوار ہری بنش سنگھ 375789 ۔ بی ایس پی آصف نظام الدین صدیقی 207567 ، سماج وادی پارٹی پرمود پٹیل120107 ، کانگریس رتناسنگھ کو 138620 ووٹ موصول ہوئے تھے ۔2009 کے انتخاب میں سماج وادی پارٹی سے اکشئے پرتاپ سنگھ کو 121252، کانگریس کی رتناسنگھ کو 169137، بی جے پی سے لکشمی نرائن پانڈے کو 45575 ، بی ایس پی سے شیوا کانت اوجھا کو 139358 اور اپنا دل سے عتیق احمد کو 108211 ووٹ موصول ہوئے تھے جبکہ 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں ضلع سے راجا بھیاکی پارٹی جن ستہ دل کے آنے سے ٹھاکر طبقے کے بیشتر رائے دہندگان راجا کے ساتھ کھل کر آگئے ہیں ۔

 اتحاد سے برہمن امیدوار اشوک ترپاٹھی کو بی ایس پی کا ٹکٹ ملنے کے بعد بنیادی رائے دہندگان میں موضوع بحث ہے کہ اپنا ووٹ دے کر ہم پھر اپنے اوپر عذاب کیسے مسلط کریں جبکہ برہمن طبقے کے90 فیصد رائے دہندگان بی جے پی کے ساتھ ہیں ۔ ان حالات میں عوام کا خیال ہے کہ برہمنوں کے دو تین فیصد ووٹ انہیں حاصل ہو سکتے ہیں ۔2014 کے انتخاب میں مسلم رائے دہندگانوں نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے آصف نظام الدین صدیقی کی حمایت کی تھی ۔انہیں مسلمانوں کے خالص ایک لاکھ 80 ہزار ووٹ موصول ہوئے تھے باقی27 ہزار ووٹ بی ایس پی کے بنیادی ووٹ تھے ۔بی ایس پی امیدوار اشوک ترپاٹھی کو خوش فہمی ہے کہ مسلم و دلت انکو چھوڑکر جانے والا نہیں ہے جبکہ مسلم رائے دہندگان میں انکی اچھی شبیہ نہ ہونے کے سبب عوام کا خیال ہے کہ انہیں حمایت کرنا بی جے پی کو ووٹ دینے کے مساوی ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے2009 کے انتخاب کے بعد2014 میں ووٹ گھٹے ہیں ۔بی ایس پی کو 2009 اور2014 کے انتخاب میں مسلمانوں کی حمایت سے گراف بڑھا ضرور ہے اس کے برعکس 2019 کے انتخاب میں بی ایس پی کو تقریبا دو تین فیصد برہمنوں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے ۔مسلم رائے دہندگان اس وقت خاموش و تذبذب میں ہیں کہ وہ اپنا ووٹ کس کو دیں ؟جبکہ یہ بھی گفتگو ہے کہ بی جے پی کے سامنے جو مضبوط امیدوار ہو گا مسلم رائے دہندگان اس کی حمایت کر سکتے ہیں۔