حیدرآباد ۔ سوشل میڈیا کی موجودگی نے عام انسانوں اور خاص کر نوجوانوں کو اپنی آواز اور خیالات دوسروں تک پہنچانے کی ایک آسان راہ ہموار کر دی ہے جبکہ ٹک ٹاک کی مقبولیت نے تو اس میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ نوجوان دوستوں کے گروپ کی جانب سے کسی ہوٹل یا تفریحی مقامات کی تفصیلات عوام تک پہنچانے کے لیے ویڈیوز کا تیار کرنا ایک عام رجحان ہوچکا ہے اور معلومات کی غرض سے ویڈیوز تیار کرنا اور اسے شوشل میڈیا پر شائع کرنا آج ایک نوجوانوں کا مقبول مشغلہ ہے۔
معلومات کی غرض اور عوام تک شعور بیداری پہنچانے کے لئے ویڈیوز کا بنانا بہترعمل ہوسکتا ہے لیکن ویڈیوز کو بنانے کے دوران قانونی پہلووں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ یہ خدشات بڑھ جاتے ہیں کہ جو ویڈیو آپ کسی ہوٹل مقام یا شخص کے تعلق سے بنا رہے ہیں وہ آپ کے خلاف قانونی کاروائی بھی کر سکتا ہے۔
حیدرآبادی نوجوانوں میں چونکہ مختلف ہوٹلوں میں لذیذ حیدرآبادی کھانوں سے لطف اندوز ہونے کا ایک مزاج ہے اور وہ دوستوں کے ساتھ کسی ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد اس کی تعریف اور نکتہ چینی میں ویڈیوزکی تیاری کرتے ہیں اوراسے سوشل میڈیا پر شائع کردیتے ہیں لیکن بعض اوقات یہی حرکت ان کے خلاف قانون کا شکنجہ کسنے کے لئے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ایسا ہی ایک واقعہ حیدرآباد کی مشہور ہوٹل پستہ ہاو ¿س کے ساتھ بھی پیش آ رہا ہے۔
پستہ ہاؤس گروپ کے ڈائریکٹر نے حیدرآباد سینٹرل کرائم اسٹیشن (سی سی ایس) میں ایک ویڈیو کے خلاف شکایت درج کروائی ہے کیونکہ ویڈیو میں پستہ ہاؤس کے خلاف یہ پیغام دینےکی کوشش کی گئی ہے کہ پستہ ہاؤس کی جانب سے فراہم کی جانے والی غذائی اشیاءمیعاری نہیں ہیں۔
سی سی ایس کے مطابق پستہ ہاؤس گروپ کے ڈائریکٹر ایم اے موسی نے ایک شکایت درج کروائی ہے جس میں انہوں نے پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پرگشت کرنے والے اس ویڈیو اور اسے بنانے والوں کے خلاف اقدامات کرے کیونکہ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح پستہ ہاؤس کی جانب سے فراہم کی جانے والی اشیاءغیر میعاری ہیں۔
پستہ ہاؤس کے ڈائریکٹر نے پولیس سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ویڈیو بنانے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے اس کے علاوہ ویڈیو تیارکرنے والوں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بھی درج کئے جانے کی خبر بھی ہے۔ پستہ ہاو ¿س کی ڈائریکٹر ایم اے موسی نے اس ضمن میں سٹی کمشنر پولیس انجنی کمار اور ایڈیشنل ڈی جی پی شیکھا گوئل سے بھی ملاقات کی ہے۔
پستہ ہاؤس کا یہ معاملہ نوجوانوں کے لیے خواب غفلت سے جاگنے کے لئے کافی ہے جو کہ مختلف تفریحی مقامات اور ہوٹلوں میں ویڈیوز بنا کر اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں جس سے نا صرف کسی ہوٹل یا ہوٹل میں موجود افراد کی خانگی زندگی کی رازداری سے کھلواڑ ہوتا ہے جس سے ان کے خلاف قانونی کاروائی کاخدشہ بھی رہتا ہے ۔
حالیہ دنوں میں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو کہ آئی سی سی کرکٹ ورلڈکپ کے دوران ہندوستانی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کے متعلق تھا ۔ورلڈ کپ میں ہندوستان کے خلاف ہونے والے مقابلہ کی شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کے لیے یہ ویڈیو ایک نیا تنازعہ ثابت ہوا تھا، جہاں کسی نے حقہ پارلر میں ثانیہ مرزا اور ان کے پاکستانی شوہر شعیب ملک کے ہمراہ بیٹے اذہان کی موجودگی کا ایک ویڈیو وائرل کیا تھا جس پر ایک ہنگامہ گھڑا ہوا تھا ۔کسی بھی عوامی مقام پر ویڈیو ریکارڈنگ کے وقت قانونی رہنمائی کا خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ ناصرف کسی کی خانگی زندگی میں مداخلت سے خود کو دور رکھا جائے بلکہ تنازعہ ہونے کے بعد قانونی پیچیدگیوں سے خود کو محفوظ رکھا جاسکے۔