نئی دہلی ۔ دہلی فسادات نے کئی گھر اجاڑدئے اور آئے دن اس کی وجوہات اور ذمہ دار افراد کی تفصیلات سامنے آرہی ہے اور اب نئی تحقیق میں دہلی پولیس کمشنر کی لاپرواہی کو ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے۔ملک کے سابق سینئر عہدیداروں نے صدر جمہوریہ کو دہلی فسادات پر ایک فیکٹ فائنڈنگ گروپ کی رپورٹ روانہ کی ہے جس میں انہوں نے دہلی میں ہوئے فسادات، وجوہات اور آگے ایسا نہ ہو اس کے لئے سفاراشات کا تفصیلی ذکر ہے۔ اس گروپ نے اپنی سفارشات میں تحریرکیا ہے کہ اگر پولیس کمشنر پہلے دن لاپروائی نہیں برتتے تو اتنے بڑے نقصان کوکم کیا جاسکتا تھا۔ واضح رہے دہلی میں تشدد اور اس کے بعد، فیکٹ فائنڈنگ مشن کی جانب سے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی۔
سابق سرکاری عہدیداروں پر مشتمل آئینی طرز عمل گروپ (کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ) (سی سی جی) کے ارکان نے شمال مشرقی دہلی میں ہوئے حالیہ فسادات سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دہلی کے کچھ علاقوں میں تشدد 23 فروری 2020 سے لے کر26 فروری تک جاری رہا۔ سی سی جی کے گیارہ ارکان نے شیو وہار، برج پوری اور مصطفی آباد سمیت شمال مشرقی دہلی کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔گیارہ ارکان پر مشتمل اس گروپ نے اپنی رپورٹ میں تحریرکیا ہے کہ یہ تکلیف دہ ہے کہ تشددکے دو ہفتوں سے بھی زیادہ وقت کے بعد اس گروپ کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے تشدد سے متاثرہ لوگوں کو ذہنی یا جسمانی مدد فراہم کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی سنجیدہ رسائی کے زیادہ ثبوت نہیں ملے۔اس رپورٹ میں مزید تحریرکیا گیا ہے کہ سماج کے مختلف طبقوں کے مابین اعتماد سازی کے اقدامات کو دوبارہ سے قائم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی ہے۔
اس گروپ نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر کے اپنے مشاہدات کو اپنی رپورٹ میں پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق شیو وہار میں اولیاءمسجد کی پوری عمارت تقریباً جلی ہوئی پائی گئی۔ ایک مقامی شخص نے نشاندہی کی ہے کہ مسجد میں کئی کچن گیس سلنڈر پھینکے گئے تھے اور اس کی مکمل تباہی کو یقینی بنایاگیا تھا۔ مسجد کی عمارت کو بچانے کے لئے ایک ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے شخص نے فائر بریگیڈکوکئی فون کیے تھے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ لوگوں نے اس گروپ کو بتایا کہ شرپسند عناصر مسلسل ”جے شری رام“ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آزادی دلاتے ہیں، یہ اندرکی بات ہے، پولیس ہمارے ساتھ ہے، کے نعرے بھی لگ رہے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگوں نے بتایا کہ بجلی کی لائنیں جان بوجھ کرکاٹ دی گئی تھیں اور بجلی کے میٹر جلا دیئے گئے تھے، جس سے پورے علاقے کو اندھیرے میں دھکیل دیا گیا تاکہ مسلم برادری کو ہونے والے تشددکی وجہ سے دوڑنے پر مجبور کیا جا سکے۔
اس گروپ نے سابق رکن اسمبلی بھیشم شرما کے اسکول ارون پبلک اسکول کا دورہ کیا اور اسکول انتظامیہ نے دعوی کیا کہ اس کا 1.5 سے 2.0 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، اسکول کی لائبریری جل گئی تھی اور زیادہ ترکلاس روم خراب ہوگئے ہیں۔ آتشزدگی میں تیس سال سے زیادہ کے تمام ریکارڈ بھی تباہ ہوگئے۔ اسکول کی جلد مرمت کردی گئی ہے اور اسے پینٹ کیا جارہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ گروپ کو بتایا گیا کہ جس وقت اسکول کوجلایا گیا اس وقت طلباءامتحان دے رہے تھے اور فائر بریگیڈ نے بارہ گھنٹے کے وقفے کے بعد جوابی کارروائی کی اور پولیس کنٹرول روم نے بار بار فون کرنے پر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
اس گروپ کے ارکان نے شیو وہار میں واقع فیصل فاروق کے اسکول راجدھانی پبلک سینئرسیکنڈری اسکول کا دورہ کیا، لیکن گیٹ بند ہونے کی وجہ سے وہ اندر نہیں جاسکے۔ گروپ نے تحریرکیا ہے کہ باہر سے ایسا لگا جیسے اسکول بری طرح تباہ ہوچکا ہے اور متعدد کلاس روم جل چکے ہیں۔ اسکول کے مالک فیصل فاروق کو حال ہی میں پولیس نے گرفتارکیا ہے۔اس گروپ نے دہلی وقف بورڈ کے ذریعہ قائم عیدگاہ ریلیف کیمپ کا بھی دورہ کیا جس میں تقریباً 1200 بے گھر مسلمان پناہ لئے ہوئے ہیں۔گروپ نے یہ بھی تحریرکیا ہے کہ دہلی حکومت کے ذریعہ کوئی طبی سہولت فراہم نہیں کی گئی ہے۔ گروپ نے وہاں پایا کہ غیر سرکاری تنظیموں نے ڈاکٹروں اور ضروری سامان کا انتظام کیا ہوا ہے۔ گروپ نے تحریرکیا ہے کہ دہلی وقف بورڈ کے ارکان کی عدم توجہی وہاں پر پوری طرح ظاہر ہورہی ہے۔
اس گروپ نے وریندر سنگھ کے کارگیراج کا دورہ کیا جہاں تقریباً 40 گاڑیاں مکمل طور پر جھلسی نظر آئیں۔ یہ گیراج ہندو اور مسلمانوں کی گاڑیوں کی پارکنگ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس گروپ نے شیو وہارکی گلی میں واقع مدینہ مسجد کا دورہ کیا اور پایا کہ مسجد کو بری طرح نقصان پہنچا گیا ہے اورجلایا گیا ہے۔ کئی مکانات بری طرح تباہ ہو گئے اور مکین اپنا گھرچھوڑکر بھاگ گئے تھے۔اس گروپ نے تحریرکیا ہے کہ ان کے سامنے ہندو اور مسلمان پڑوسیوں نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے اس طرح کے واقعات بھی سننے میں آئے۔ اس طرح اس کے شواہد بھی ملے ہیں کہ مسلمان علاقے کے مندروں اورہندو پڑوسیوں کی حفاظت کے لئے مسلمان کھڑے رہے اورکسی بھی مسلم علاقہ میں کسی ہندو عبادت گاہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ گروپ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا ہے کہ کچھ معاملات میں ہندووں نے مسلمانوں کی جائداد اورگھروںکی نشاندہی بھی کی۔ جہاں کچھ ہندووںکے گھروں کو جلا ہوا پایا گیا وہیں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی دکانیں اور گھر جلے ہوئے پائے گئے۔
اس گروپ نے دیکھا کہ اپنے گھروں سے بے گھر ہندووں کے لئے کوئی کیمپ نہیں تھا۔ اس گروپ نے تحریر کیا ہےکہ 23 فروری 2020 کومسلم اور ہندو دونوں طبقوں کے شرپسندوں اور فسادیوں نے لڑائی لڑی اور دوسری برادری کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ تاہم، 24 اور 25 فروری 2020 کو ایسا لگتا ہے کہ فساد نے منظم شکل اختیارکرلی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 23 فروری کو تشدد کے پہلے ہی دن اگر پولیس کمشنر نے امن و امان برقرار رکھنے کے لئے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہوتا تو زیادہ تر آتش زنی، نقصان اور اموات کو روکا جاسکتا تھا۔ وہ کرفیو نافذ کرسکتے تھے اور تشدد اورآتش زنی میں ملوث کسی بھی ہجوم پر فائرنگ کا حکم دے سکتے تھے۔
اس گروپ نے آئندہ ایسا نہ ہو اس کے لئے کچھ سفارشات کی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لئے پولیس اور انتظامیہ کو سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اس گروپ نے رپورٹ میں تحریرکیا ہے کہ کچھ سیاست داں اور الیکٹرانک و سوشل میڈیا پرکچھ ایسی اشتعال انگیز خبریں پھیلائی گئیں جن کو روکنا ضروری تھا۔ ہندوستانی نظریہ کی حفاظت کی ضرورت تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سینیئر عہدیداروں کو ایسے واقعات کے لئے مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے۔ راحت کے کاموں کے لئے دہلی حکومت کو اپنا عملہ بڑھانا چاہیے اور راحتی کاموں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔