Monday, June 9, 2025
Homeخصوصی رپورٹپھولوں کا سہرا، آتشبازی اور بارات اغیار کی دین

پھولوں کا سہرا، آتشبازی اور بارات اغیار کی دین

- Advertisement -
- Advertisement -

اطہر معین

دور نبوت میں نکاح سے متعلق تقریبات انتہائی سادگی سے ہوا کرتی تھیں اور اس خصوص میں صرف دو ہی نوعیت کی تقریبات کا ہمیں ذکر ملتا ہے۔ ایک محفل‘ عقد نکاح کی اور دوسری تقریب ولیمہ کی ہوا کرتی تھیں۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبی رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہترین نکاح وہ ہے جو کم خرچ ہو۔ حضرت بی بی عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس کو مساجد میں منعقد کیا کرو اور اس پر دف بجایا کرو۔ نبی کریم ﷺ کا ولیمہ سے متعلق ارشاد گرامی ہے کہ ولیمہ ضرور کرو چاہے ایک ہی بکری کیوں نہ ہو۔ نبی کریم ﷺکے اسوہ حسنہ سے یہی سبق ملتا ہیکہ ان دو تقاریب کے انعقاد میں تبذیر‘ اسراف اور دکھاوے سے پرہیز کیا جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ایسا گروہ انسانی ہے جن سے زیادہ نبی رحمت ﷺسے محبت و فدائیت کا مظاہرہ کرنے والا کوئی فرد تاقیامت پیدا نہیں ہوسکتا۔ حقیقی معنوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین و اہل بیت اطہار کی ہر محبت پر حب رسولﷺغالب رہا کرتی تھی۔وہ ہر وقت اپنی جان عزیز ایک اشارہ پر قربان کرنے تیار رہا کرتے تھے اس کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں بعض نے عقد نکاح بھی کرلیا اور اس کی خبر نبی رحمت ﷺ کو بروقت نہیں دی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی رسول کے لباس سے خوشبو آتی محسوس کی تو ان سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے کہ آپؓ کے پاس سے خوشبو آرہی ہے؟ اس صحابیؓنے بڑی انکساری سے جواب دیا کہ انہو ں نے گذشتہ شب نکاح کرلیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؐ کو مدعو نہ کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ صرف ولیمہ کرنے کی ہدایت دی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دور نبوت میں تقریب عقد نکاح دو خاندانوں کا آپسی معاملہ ہوا کرتا تھا اور اس میں قریبی لوگوں کے علاوہ بھی جان پہچان کے سبھی لوگوں کو مدعو کرنے کا رواج نہیں تھا۔ دور نبوت میں نکاح کے موقع پر طعام کے نظم کی بھی کوئی نظیر ملتی البتہ ولیمہ کی دعوت کرنے پر نبی کریمﷺ نے بڑی تاکید کی ہے۔ ایک اور واقعہ سے پتہ چلتا ہیکہ نبی کریم ﷺکے ایک صحابیؓ کے عقد نکاح کرلینے کی بابت پتہ چلتا ہے تو انہیں ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ولیمہ کی دعوت کریں جب صحابی رسولؓ اپنی غربت کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ مہمانوں کی ضیافت کیلئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے فرماتے ہیں کہ اپنے اپنے گھروں سے کھانا ساتھ لے آئیں اور مل کر ولیمہ کی دعوت کے طور تناول فرمالیں۔ لڑکی والوں کی طرف سے عقد نکاح کے موقع پر تناول طعام کا نظم کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں ملتا چونکہ جس گھر سے لڑکی وداع ہوتی ہے وہ گھر خوشیوں کا گھر نہیں ہوتا بلکہ اس گھر میں بیٹی اور بہن کی جدائی کا غم ہوتا ہے۔ خوشی تو لڑکے کو ہوتی ہے جس کا گھر بسنے جارہا ہوتا ہے اس لئے وہ دعوت طعام کرتا ہے تو ایک سنت کی تکمیل کرتا ہے۔ عقد نکاح کے موقع پر چھوارے لڑکے والے لاتے ہیں اور طعام کا بوجھ لڑکی والوں پر ڈال دیتے ہیں۔ لڑکی والے جب طعام پر ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں تو وہ چھواروں کا انتظام نہیں کرسکتے؟ جہاں تک عقد نکاح کے موقع پر دف بجانے یا دھواں چھوڑنے سے متعلق احادیث کا تعلق ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ نکاح کی تشہیر ہوجائے اور مقامی لوگوں کو پتہ چل جائے کہ فلاں کی بیٹی اور فلاں کے بیٹے میں ازدواجی تعلقات قائم ہوگئے ہیں۔ دف کی بجائے بیانڈ باجے اور آتشبازی اور انواع و اقسام کے کھانوں‘ فنکشن ہالس کو سجانے وغیرہ کی اسلام میں قطعی اجازت نہیں ہے۔ نکاح کو مسجد میں کرنے سے بہت سے لغو کاموں سے نجات مل سکتی ہے۔ دور نبوی میں ولیمہ کے لئے رات میں دعوت طعام کی بھی مثال نہیں ملتی۔ شب زفاف کے بعد ولیمہ کی مثالیں ملتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ولیمہ کی دعوتیں بھی دن کے اوقات میں ہی ہوا کرتی تھیں۔ اسلامی طور طریق کو چھوڑ کر ہم غیر ضروری رسومات اور اونچی دعوتیں کرتے ہوئے اپنی کمائی کو ضائع کررہے ہیں۔ رقعے‘ بیانڈ باجے اور آرکسٹرا‘ آتشبازی‘ پھولوں کا سہرا‘ بارات کیلئے ہمارے پاس کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ دعوت کی اطلاع کیلئے کم خرچ طریقہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے مگر آجکل فی رقعہ 2 روپے تا 200 روپے میں تیار ہونے لگا ہے۔ اسلام میں مرد کو چہرہ چپھانا نہیں ہے مگر ہمارے دولھے میاں نہ جانے کیوں راجپوتوں کے جمائی راجہ کی طرح اپنے چہرہ کے آگے پھولوں کی لڑیاں چھوڑلیتے ہیں۔ اسی طرح بارات کا بھی ہمارے پاس کوئی تصور نہیں ہے۔ اغیار میں بارات کا آغاز اس لئے ہوا کہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جاتے ہوئے رہزنوں اور ڈاکوؤں کے لوٹ لئے جانے کا خطرہ لاحق رہتا تھا اس لئے لڑکے والے دان دھیج میں جو بھی ساز و سامان ملتا تھا اس کی اور دلہن کی حفاظت کیلئے اپنے ساتھ بارات لے جانے لگے۔ اغیار کی دیکھا دیکھی ہم بھی بڑی دھوم دھام سے بارات نکالنے لگے ہیں اور آجکل تو لڑکے کے دوست اور نوجوان و بوڑھے رشتہ دار بھی بارات کے سامنے بیانڈ باجوں کی تھاپ پر رقص کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ایک اندازے کے مطابق حیدرآبادی مسلمان نکاح سے متعلق رسم سے جمعگی تک کی رسومات اور تقریبات پر سالانہ 1,000 کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں۔ حیدرآباد میں ہر سال تقریباً 10,000 عقد نکاح ہوتے ہیں۔ رسم پر لڑکے اور لڑکی والوں دونوں کی طرف سے علیحدہ طور پر 5,000-25,000 روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ پاؤمیز کی رسم پر 10,000-50,000 روپے‘ سانچق اور مہندی پر 5,000-10,000 روپے‘ عقد نکاح کی تقریب میں طعام اور دیگر لوازمات پر 50,000-10,00,000 روپے‘ ولیمہ کی دعوت اور دیگر لوازمات پر بھی تقریباً 50,000-10,00,000 روپے‘ جمعگیوں پر دونوں طرفین کی طرف سے علیحدہ علیحدہ طور پر 10,000-50,000 روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ بیانڈ باجوں‘ آتشبازی اور آرکسٹرا وغیرہ پر 5,000-1,00,000 روپے اور ان تقاریب میں شرکت کرنے والوں کی جانب سے تحائف اور ٹرانسپورٹ پر مجموعی طور پر 5,0000-1,00,000 روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ اس طرح حیدرآباد میں ہر سال ایک ہزار کروڑ سے زائد روپے مسلمان خرچ کرڈالتے ہیں۔ نکاح سے متعلق تقریبات میں حیدرآبادی مسلمان ہر سال تقریباً 500-600 کیلو گرام طلائی زیورات اور ہیرے جڑے زیورات خریدتے ہیں جن کی اقل ترین مالیت 125-200 کروڑ روپے ہوتی ہیں۔ ان تقاریب میں شرکت کرنے والی خواتین میک اپ کے سامان اور بیوٹی پارلرس کے مصارف پر بھی تقریباً 5 کروڑ روپے خرچ کرڈالتی ہیں
نوٹ: گذشتہ مضمون میں سہواً غیر محرم کی بجائے محرم شائع ہوگیا۔ قارئین صحت فرمالیں۔