حیدرآباد ۔دنیا کے کسی بھی کونے میں جب شہر حیدرآباد کا نام لیا جاتا ہے تو ذہنوں میں یہاں کی تاریخی عمارتوں میں سب سے پہلے چار مینار کے نقوش ابھرنے لگتے ہیں ،جس کے بعد حیدرآباد کی میزبانی اور بریانی کی طرف توجہ جاتی ہے ۔تاریخی عمارت چار مینار بھلے ہی دنیا کے 7 عجائبات میں شامل نہ ہو لیکن اس کے باوجود یہ عمارت کسی بھی لحاظ سے مقبول ترین تاریخی عمارتوں میں با آسانی شمار کی جاتی ہے ۔
چارمینار کے نظارے کے لیے دنیا بھر سے سیاح یہاں پہنچتے ہیں اور اپنے ساتھ یہاں کی خوشگوار یادیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آدھی رات گذر جانے کے باوجود جہاں چارمینار کے دامن میں مختلف دکانیں اپنی آب و تاب پر کھلی رہتی ہیں تو وہیں چارمینار کے دامن میں مقامی اور بیرونی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے جوکہ اس تاریخی عمارت کی خوبصورتی ، دل کشی اور فن تعمیر کی شاہکاری سے لطف اندوز ہوتی رہتی ہے ،جبکہ چاندنی راتوں میں چارمینار کے دامن میں سیلفیز لینے والوں اور سالگرہ کی تقاریب منانے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے ۔ اس کے علاوہ چارمینار کے دامن میں خوشی کے اپنے لمحات کو دوست و احباب اور افراد خاندان کے ساتھ یادگار بنانے اور کیک کاٹنے کا رجحان بھی کافی بڑھ چکا ہے ۔
چارمینار کی اہمیت اور سیاحوں کی یہاں کثیر تعداد میں آمد سے قطع نظر ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ چارمینار کے دامن میں موجود دوکان داروں کی لاپرواہی اور کاہلی کی وجہ سے ایک منفی پیغام دنیا بھر کو جا رہا ہے ۔گزشتہ رات راقم الحروف کا اپنے دوست اور پونے سے آئیے ان کے ایک تجارتی دوست کے ساتھ چارمینار جانے کا اتفاق ہوا لیکن یہ اتفاق ایک تلخ تجربہ ثابت ہوا ہے ۔
چارمینار کے قریب موجود ارمان ہوٹل میں رات کا کھانا کھانے کے بعد جب ہم تین دوست چار مینار کی تاریخی عمارت کا نظارہ کرنے پیدل ہی گلزار ہاؤز سے چارمینار کی طرف جب آگے بڑہنے لگے تو کچھ مناظر دیکھ کر کافی تکلیف ہوئی ۔کیونکہ دکانداروں نے اپنی اپنی دکانوں کے سامنے سڑک پر جگہ جگہ کچرا اور پلاسٹک کے بیاگس ڈالدئے ہیں ۔چارمینار کے بالکل سامنے جو دکانیں موجود ہیں وہ دکانیں دراصل قرآن مجید اورعربی کتابوں کے علاوہ دیگر اہم مذہبی کتابوں کی فروخت کے لیے قائم برسوں پرانی دکانیں ہیں ،لیکن ان دکانوں کے سامنے پلاسٹک کا کچرا یہاں پہنچنے والے مقامی اور بیرونی سیاحوں کو ایک منفی پیغام دے رہا ہے ،حالانکہ حیدرآباد بادشاہوں اور نوابوں کا شہر ہے۔
بادشاہوں اور نوابوں کی یہ بالکل شان نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے گھراورآنگن کو خود ہی کوڑا کرکٹ سے گندا کرتے ہوئے بیرونی دنیا کو یہ پیغام دیں کہ حیدرآبادی عوام صاف صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ حیدرآبادی تہذیب میزبانی کے لیے مشہور ہونے کے علاوہ مذہب اسلام جس نے پاکی اورصفائی کو آدھا ایمان قرار دیا ہے لیکن اسلام کو ماننے والے ان دکانداروں کی دانستہ یا دانستہ طور پر کی جانے والی اس حرکت سے یقینا چار مینار،حیدرآبادی تہذیب اور مذہب اسلام کی غلط تصویر پیش ہورہی ہے اور حیدرآباد کی شاندار تہذیب کا غلط پیغام دنیا کو جا رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چارمینار کے دامن میں موجود دکانداروں کو اپنی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کے ساتھ اپنی دکان کے اطراف کے حصے کو صاف ستھرا رکھتے ہوئے دنیا بھرکویہ پیغام دینا ہوگا کہ نہ صرف حیدرآبادی عوام مہذب ہے بلکہ اسلام پاکی کا خیال رکھنے کی تعلیم دینے والا مذہب ہے اور اس مذہب کے پیروکار وں کی زندگی اور عملی کام بھی پاکی کا ترجمان ہے۔