حیدرآباد۔
حبیب الرحمن کے زیر انتظام ایک فیس بک پیج پر ہونے والی گفتگو دکن کی پائیگاہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا سرنگ ہوسکتا ہے جو شاید دوسری جنگ عظیم کے دوران شاہی خاندان کے ذریعہ بنایا گیا تھا اور ممکنہ طور پر ہوائی حملوں سے بچنے کے لئے کیا جانا والے اقدام تھا ۔ حبیب الرحمن نے کہا ہے اگرچہ اس کا ذکر سرنگ کے طور پر کیا گیا ہے لیکن یہ درحقیقت ایک بنکر تھا۔
اب جبکہ سرنگ پر بحث جاری ہے چارمینار اور گولکنڈہ کو ملانے والی سرنگ کے وجود کی پرانی بحث بھی کئی حلقوں میں پھر سے زندہ ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چارمیناراورگولکنڈہ قلعہ کو ملانے والی ایک سرنگ تھی اور بادشاہ اکثر اس سرنگ سے گذرتے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سرنگ میں سپاہیوں نے گھوڑے کی پیٹھ پر گشت کیا بھی تھا۔
سرکاری اسکول کے پرنسپل محمد فاروق طاہر نے کہا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ قطب شاہی دور میں سرنگوں کی تعمیر کی گئی تھی تاکہ حملوں کے دوران فرار ہوسکے۔ اس کے علاوہ ہمارے دادا دادی ان سرنگوں میں چھپے ہوئے خزانوں کی داستانیں سناتے تھے ۔
ریٹائرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے مردم شماری آپریشن خواجہ معین الدین جنہوں نے 1962 میں حیدرآباد کا ایک سروے کیا تھا انہوں نے بھی اس سرنگ کے بارے میں بتایا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ 1936 میں نظام عہد کے دوران حیدرآباد کی میونسپلٹی کے اس وقت کے کمشنر عنایت جنگ اورآثار قدیمہ کے ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر غلام یزدانی نے سرنگ کا تفصیلی سروے کیا تھا اور ان کے ذریعہ ایک نقشہ بھی تیار کیا گیا تھا جو باضابطہ طورپر اس وقت کے حکمران نظام ہشتم میر عثمان علی خان کو پیش کیا گیا تھا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ چارمینار کے آس پاس مختلف مقامات پر سرنگ کی کھدائی کا کام شروع کیا گیا تھا اور واقعی ایک سرنگ ملی بھی تھی اور اس کی ایک رپورٹ پیش کی گئی۔ تاہم اس کے بعد کیا ہوا اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ایک سماجی کارکن سروری بیگم کے بموجب کچھ سال پہلے جب سرنگ کے بارے میں پٹلہ برج میں ایک قدیم تعمیر کی جگہ ملی تھی اس کے بارے میں بہت چرچا ہوا تھا۔ تاہم آثار قدیمہ کے عہدیداروں کو کوئی ثبوت نہیں مل سکا اور بعد میں وہاں ایک پولیس کوارٹر تعمیر کیا گیا ۔
محمد صفی اللہ جوکہ ایک تاریخ دان ہیں انہوں نے کہا کہ چارمینار تا گولکنڈہ سرنگ کا وجود ایک افسانہ ہے۔حیدرآباد ایک سطح مرتفع خطہ ہے اور اتنی لمبی سرنگ بنانا انتہائی مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ محبوب چوک ٹاور کے چاروں طرف ایک زیر زمین محل تھا جو 4.5 ایکڑ میں پھیلا ہوا تھا ۔حیدرآبادی عوام میں چارمینار تا گولکنڈہ سرنگ کی حقیقت جاننے کی جو بے چینی ہے وہ اس اس کے راز افشا ہونے تک باقی رہے گی ۔