حیدرآباد ۔ ریاست آندھراپردیش کے سابق چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کی گھر پر قید کرنے کی حرکت حکومت کی جانب سے پھر ایک مرتبہ اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں کی جانے والی کارروائی ہے جوکہ غیردستوری اور غیرجمہوری عمل ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے کسی پارٹی کے صدر اور اس کے قائدین کو گھروں پر قید کیا جارہا ہے جیسا کہ آج تلگودیشم کے صدر چندرا بابو نائیڈو اور ان کے بیٹے نارا لوکیش کو گھروں پر نظربند کردیا گیا ہے بلکہ کشمیر کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ۔
بابو کو گھر پر نظر بند اس لئے کردیا گیا کیونکہ انہوں نے چلو آتماکور پروگرام کی اپیل کی تھی۔ بابو کا موقف ہیکہ انہوں نے چلوآتما کور پروگرام کیلئے آواز لگائی تھی جس پر حکومت نے انکی آواز دبانے کیلئے نہ صرف انہیں اس پروگرام سے دور رکھا ہے بلکہ گھروں پر نظربندکردیا ہے جوکہ افسوسناک اقدام ہے۔ بابو کو تاریخ میں کبھی ایسے حالات کا سامنا کرنا نہیں پڑا تھا جیسا کہ اب انہیں بیٹے کے ساتھ گھر پر نظربند کردیا گیا ہے۔
سب سے پہلے یہ جان لینا بھی ضروری ہیکہ بابو کا آخر یہ چلو آتما کور پروگرام کیا ہے۔ آتماکور میں 120 ایس ٹی خاندان کیمپس میں مقیم ہیں اور ان افراد کو غذا کے علاوہ دیگر بنیادی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جارہی ہیں جس پر بابو نے 540 متاثرہ خاندانوں اور ان کے دیہاتوں تک واپسی کیلئے یہ جدوجہد شروع کی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کی جانب سے سینکڑوں خاندانوں کے افراد کو راحت پہنچانے کیلئے کی جانے والی کوشش کے برعکس حکومت نے انہیں ان کے بیٹے کو گھروں میں نظربند کردیا ہے۔
بابو اور ان کے ساتھیوں کو ایک پولیس اسیٹشن سے دوسرے پولیس اسٹیشن منتقل کیا جاتارہا ۔ کسی بھی قائد کی جانب سے عوام کیلئے کی جانے والی کوشش کو اپوزیشن کی سازش بتا کر غیردستوری کام کیا جانا آج ہندوستان میں اور خاص کر مودی حکومت کیلئے ایک فیشن بن چکا ہے۔
چندرا بابو نائیڈو نے چلو آتماکور پروگرام کو ناکام بنانے کیلئے انہیں گھر پر جو نظربند کیا گیا ہے اس پر شدید برہمی اور مایوسی کا اظہار کیا ہے جو کہ فطری ردعمل بھی ہے جبکہ انہوں نے ان عزائم کا اظہار بھی کیا ہیکہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ انہیں کتنے دنوں تک اس طرح قید کیا جاتا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو جوکہ امراوتی کے اندہ ولی میں موجود اپنے گھر سے جب احتجاجی ریالی کیلئے نکل رہے تو ریاستی حکومت کی جانب سے ان پر حالات سخت کردیئے گئے جیسا کہ پولیس نے انہیں احتجاجی ریالی کو منظم کرنے کی اجازت نہیں دی۔
بابو کے خلاف جوکارروائی کی گئی ہے وہ یقینی طور پر ایک غیرجمہوری اور غیردستوری عمل ہے لیکن کشمیر کے واقعہ کے بعد اب ایسے حالات معمول بنتے جارہے ہیں کیونکہ برسراقتدار جماعتیں مودی اور آر ایس ایس کے نظریات کو فروغ دینے میں اس حد تک آگے نکل چکی ہیں کہ انہیں جمہوری اور دستوری تقدس کو پامال کرنا بھی عیب دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
جمہوریت کے آغاز سے قبل جب ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کی جارہی تھی تو اس وقت بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے لیڈروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا تھا اور وہی ماضی کی تاریخ اس وقت پھر ایک مرتبہ ہندوستان میں دہرائی جارہی ہے۔
بابوکے واقعہ سے قبل وادی کشمیر میں ایسے واقعات منظرعام پر آچکے ہیں جہاں آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے پہلے ہی وادی کشمیر کے سیاسی لیڈروں کو ہی نہیں بلکہ پوری وادی کشمیر کو گھروں میں مقید کردیا گیا اور اپنے اس ظلم و جبر کو یہ کہتے ہوئے صحیح بتانے کی کوشش کی گئی کہ یہ جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ وادی کشمیر میں امن و امان کے حالات کو برقرار رکھنے کیلئے کئے گئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ وادی کشمیر کو مکمل قید خانہ بناتے ہوئے کس طرح امن و امان قائم کیا جاسکتا ہے۔ لاکھوں کشمیری عوام بنیادی ضروریات کیلئے پریشان ہیں جہاں روٹی، کپڑا جیسے بنیادی مسائل کے علاوہ عوام کو ادویات کے حصول کیلئے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گھروں پر نظربند کرنا اس وقت مودی حکومت کا ایک نیا فیشن بن چکا ہے کیونکہ جو کوئی پارٹی یا سیاسی قائد ان کے خلاف آواز اٹھاتا ہے یا عوام کے مسائل جوکہ حکومت کی جانب سے یکسرنظرانداز کردیئے گئے ہیں ان کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو نہ صرف اس پر طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے بلکہ اسے گھروں پر ہی قید کردیا جارہا ہے۔ حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ ماں کو بیٹی سے اور باپ کو بیٹے سے ملاقات کرنے کیلئے عدالت پر دستک دینی پڑ رہی ہے۔ عوام کے ذہنوں میں ایم وائی تاریگامی کا واقعہ ہنوز تازہ ہے کیونکہ انہیں بھی نہ صرف گھر پر قید کردیا گیا تھا بلکہ علاج کیلئے باہر جانے کیلئے بھی انہیں اجازت لینی پڑی تھی۔