حیدرآباد ۔ ریاست تلنگانہ کے علاوہ ہندوستان بھر میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں روز بروز مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ اس وائرس کی وجہ سے کئی افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرف سے مختلف مواقع پر ہدایات ملتی رہتی ہیں کہ اس مرض سے ڈریں نہیں بلکہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں لیکن اس کے باوجود ہزاروں افراد اس مرض سے پریشان ہیں۔کونسی چیزیں احتیاطی تدابیر کیلئے ضروری ہیں اور اس مرض کے پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں یہ جان کر اس مرض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے تو ڈینگی پھیلنے کی وجوہات کا علم ضروری ہے تاکہ اسے پھیلنے سے روکا جاسکے۔ ماہرین کے مطابق ڈینگی بخار بھورے رنگ کے دھاری دار مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتاہے جسے ڈینگی مچھر بھی کہا جاتاہے جس کی ٹانگیں دیگر مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں اور یہ صاف پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈینگی بخار مادہ مچھروں کے کاٹنے سے ہوتاہے۔
یہ مچھر صبح طلوع آفتاب سے لے کر 8 بجے تک اور شام غروب آفتاب کے وقت باہر نکلتے ہیں اور لوگوں کو کاٹتے ہیں۔ امریکی تحقیقات کے مطابق ڈینگی بخار کا مرض امریکی بندرگاہ پر پرانے برآمد شدہ ٹائروں میں کھڑے پانی کی وجہ سے پھیلا۔
ڈینگی مچھر صاف پانی کھڑا ہونے سے پھیلتا ہے۔ مکان کی چھتوں پر پڑی بے کار اشیاء ٹوٹے ہوئے گملے، پودوں کی نرسریاں، پانی کی موٹروں سے بہنے والا پانی، فریج کی ٹرے، کھلی جگہوں پر پڑے پرانے ٹائر اور ایرکولر ڈینگی مچھر کے پیدا ہونے کے لئے بہترین آماجگاہیں ہیں لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ وہ گھروں کی چھتوں سے بے کار اشیاءفوری طور پر تلف کر دیں۔ گملوں، فریج کی ٹرے سے پانی نکال دیں تاکہ مادہ مچھر انڈے نہ دے سکے۔
ڈینگی بخار کیا ہے اس کا علم بھی ضروری ہے۔ ڈینگی کوئی نیا مرض نہیں ہے۔ یہ ایک مخصوص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس کا زیادہ تر شکار ایشیائی ممالک کے باشندے ہیں۔ لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں، یہ مکمل طور پر ایک قابل علاج مرض ہے۔
ڈینگی بخار کی علامتوں سے اسکی پہچان ہوجاتی ہے۔1۔ اس مرض میں مریض کو تیز بخار کے ساتھ ساتھ سر میں بہت سخت درد ہونے لگتا ہے۔2۔ بلڈ پریشر بہت کم ہو جاتا ہے۔ جسم اچانک بہت ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔3۔ گھٹنوں میں تکلیف اور جوڑوں میں بھی درد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔4۔ جسم انسانی کی قوت مدافعت تقریبا ختم ہو جاتی ہے۔5۔ سرخ رنگ کے دھبے پورے جسم پر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
ڈینگی بخار کے چار مراحل ہوتے ہیں۔ ابتدائی دو مراحل میں علاج آسانی سے ہو سکتا ہے۔ لیکن آخری دونوں مراحل میں جان بچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ چار مراحل یہ ہیں۔پہلا مرحلا۔ مریض کو شدید بخار اور مذکورہ بالا علامات بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ دوسرے مرحلےمیں پہلے مرحلے کی علامات کے ساتھ ساتھ بڑی آنت، مسوڑھوں اور جلد سے خون بہنے لگ جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں نظام دوران خون بھی شدید طور پر متاثر ہوتا ہے۔چوتھے مرحلے میں مریض کے لیے تکلیف ناقابل برداشت ہو جاتی ہے اور قوت مدافعت کے نا ہونے کی وجہ سے وہ کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
ڈینگی بخار سے بچاو کے لیے احتیاطی تدابیر بہت آسان ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی اموات میں ڈینگی بخار سے ہونے والی اموات کا تناسب چار فیصد ہے۔ صرف احتیاط سے ہی اس مرض سے مکمل بچاو ممکن ہے۔
چونکہ اس مرض کو پھیلانے والے مچھرصرف صاف پانی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے اپنے گھروں اور باغیچوں میں کہیں پر بھی صاف پانے کو کھڑا مت ہونے دیں۔ صاف پانے کے تمام برتنوں کو ڈھانپ کر اور واٹر ٹینک کو ہمیشہ ڈھکن لگا کر رکھیں۔
مچھر مارنے والے سپرے کا باقاعدگی سے استعمال کریں اور گھر کے ہر کونے اور بستروں اور صوفہ سیٹ وغیرہ کے نیچے سپرے لازمی کیا کریں۔ڈینگی پھیلانے والا مچھر زیادہ تر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے اوقات میں حملہ آور ہوتا ہے۔ اس لیے ان اوقات میں خصوصی احتیاط کیا کریں۔ مچھر دانی اور مچھر بھگانے والے لوشن کا استعمال بھی ایک اچھی احتیاط ہے۔
ڈینگی بخار کا علاج۔کمزور قوت مدافعت کے حامل لوگ، کم صحت مند افراد، ضعیف لوگ اور بچے اس مرض سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن جدید تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ بخار اتنا خطرناک نہیں جتنا اس کو سمجھا جاتا ہے۔ ضروری دیکھ بھال اور باقاعدہ علاج سے صرف ایک ہفتے سے دو ہفتے کے دوران مکمل شفا حاصل ہو جاتی ہے۔
طبی ماہرین کی تحقیق کے مطابق ڈینگی بخار کے علاج کے لیے پپیتے کے پتے اور شہد کا استعمال بہترین ثابت ہوا ہے۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شہد کو پانی میں حل کر کے پینا پسند فرماتے تھے۔ بالکل اسی طرح ایک پیالی نیم گرم پانی میں ایک چمچہ شہد ملا کر دن میں تین بار کھانے سے کچھ دیر پہلے مریض کو پلا دیا کریں۔
پپیتے کے پتوں کا رس نکال کر صبح اور شام پلانا بھی ڈینگی بخار کا شافی علاج مانا جارہا ہے۔ بکری کا دودھ بھی اس مرض میں نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ مریض کو دن میں بار بار بکری کا دودھ پلاتے رہنا چاہیئے۔ اس کے علاوہ بخار کو آسان تصور نہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سے رجوع ہونا ہی دانشمندی ہے۔