اطہر معین
برصغیر ہند میں بسنے والی امت محمدیہ کا یہ المیہ ہے کہ آج اس کی نئی نسل علم سے بے بہرہ ہے اور جو کچھ بھی تعلیمی قابلیتیں پائی جاتی ہیں اس میں دختران ملت کا بڑا حصہ ہے۔ ایک دور تھا کہ بیٹیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اس خمیدہ فکر کو سدھارنے کی سعی میں ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ بنت حرم نے تو علم کے سرچشمہ سے فیضان پالیا مگر لڑکوں نے ہنوز تعلیم کے میدان میں اپنے جوہر دکھانا شروع نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم لڑکوں سے زیادہ مسلم لڑکیاں تعلیم یافتہ ہیں۔ ادارہ سیاست کے دوبدو پروگرام میں یہ چونکادینے والا انکشاف ہوا ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں لڑکیوں نے لڑکوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کوئی ایسا کورس نہیں رہا ہے جس میں ہماری بیٹیوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایانہ ہو مگر جب ان کے والدین اپنی بیٹی کے لئے اس کی لیاقت سے مطابعت رکھنے والا شریک سفر تلاش کرتے ہیں تو انہیں لڑکا نہیں مل پاتا اور جن لڑکوں نے اعلیٰ تعلیم پائی ہے یا اچھے روزگار سے وابستہ ہوگئے ہیں ان کی مانگ اس قدر بڑھ گئی ہے کہ جن کی تکمیل کرنے سے لڑکی کے غریب والدین بے بس نظر آتے ہیں۔ بیٹی کو تعلیم دلانے کے بعد اس کے معیار کا رشتہ تلاش کرنے تک اس کے لئے جہیز کا سامان کرنے ہمارے کچھ گھرانوں نے لڑکیوں کو بھی ملازمت پر رکھنا شروع کردیا ہے۔ شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گھر کے لڑکوں میں اتنی لیاقت و تدبر نہیں ہے کہ وہ گھر کی کفالت کا بیڑہ اٹھائے۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حیدرآباد میں اپنے ادارے قائم کرلینے کے بعد سے کارپوریٹ شعبہ میں روزگار کے اچھے مواقع پیدا ہوئے جس سے ہماری بیٹیوں نے بھی استفادہ کیا۔ بی پی اوز؍کال سنٹرس میں ملازمت کے لئے زیادہ تعلیمی لیاقت کی بجائے امریکی و برطانوی انگریزی لب و لہجہ میں گفتگو کی صلاحیت رکھنے والوں کو مواقع حاصل ہوئے۔ روزگار کے ان مواقع سے ملت اسلامیہ کو فیض پہنچانے کے لئے ادارہ سیاست نے بہت عرصہ قبل ہی انگریزی بول چال اور شخصیت سازی کی تربیت دیتے ہوئے ان ملٹی نیشنل کمپنیوں میں روزگار کے مواقع فراہم کئے۔ کارپوریٹ شعبہ کے ماحول اور آزادانہ طرز معاشرت کو محسوس کرتے ہوئے ادارہ سیاست نے اپنے تربیت یافتگان کو جہاں ان اداروں کی ضروریات کے مطابق تربیت دی تھی وہیں ان نوجوانوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم سے بھی آگاہ کیا تھا اور انہیں ان اداروں میں بھیجنے سے قبل یہ ذہن نشین کروایا تھا کہ وہ کارپوریٹ کی چکاچوند میں اپنا دینی تشخص نہ کھودیں بلکہ اپنے طرز عمل کے ذریعہ غیر مسلموں کو اسلام کے قریب لے آنے کی کوشش کریں۔ جن نوجوانوں نے ان نصیحتوں اور ہدایات پر عمل کیا وہ اپنے اداروں میں قابل احترام سمجھے جانے لگے۔ ان نوجوانوں نے ماحول کے اثرات کو قبول کرنے کی بجائے اپنی دینی فہم و تدبر سے اپنے ساتھیوں کو متاثر کیا اور مبلغ اسلام کا رول ادا کرتے آرہے ہیں۔ جہاں تک کارپوریٹ شعبہ میں کام کرنے والے نوجوانوں کا تعلق ہے ان میں عمومی طور پر بہت سی خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ غریب اور متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے اور لڑکیوں کو جب معقول آمدنی ہونے لگی تو وہ شاہ خرچ بن گئے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن نوجوانوں کے بچپن کا ناشتہ صرف چائے اور بن ہوا کرتا تھا وہ کیفے ٹیریاز اور ریستوران میں 100-150 روپے کی کافی پینے لگے۔ پیزا اور برگر ان کی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا۔ قیمتی پرفیومس اور مہنگے سیل فونس ان کی علامت بن گئے ۔ کارپوریٹ شعبہ میں اکثر ملازمین کی اصل شناخت کو پوشیدہ رکھتے ہوئے انہیں انابتی نام دئیے جاتے ہیں جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کسٹمرس سے نمٹنے والے ملازمین کے نام سہل اور آسان ہونے چاہئے اور نام سے ملازمین کی مذہبی شناخت نہیں ہونی چاہئے تاکہ کسٹمر کے تحفظات کا شکار ہوئے بغیر کمپنی کے پراڈکٹ سے متاثر ہو ۔ مسلم ملازمین کو دانستہ طور پر عیسائی اور ہندو نام دےئے جاتے ہیں۔ پہلے تو ناموں کی تبدیلی کے ذریعہ ملازمین کا تشخص ختم کردیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جنسی امتیاز کو بھی ختم کردیا جاتا ہے۔ ان اداروں میں خواتین کے لئے کوئی امتیاز نہیں ہوتا بلکہ انہیں مردوں کے برابر ہی متصور کیا جاتا ہے جس سے ان خاتون ملازمین میں پائی جانے والی فطری شرم و حیا ختم ہوجاتی ہے۔ کارپوریٹ شعبہ کے تقاضوں کے نام پر جو پروموشنل پروگرامس منعقد کئے جاتے ہیں ان میں بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ رات دیر گئے ہوٹلوں میں پروگرامس منعقد کئے جاتے ہیں جن میں تمام ملازمین کی شرکت کو لازم قرار دیا جاتا ہے۔ ان محفلوں میں شراب کا دور چلتا ہے اور ساتھی ملازمین ان ملازمین کو بھی شراب نوشی کی ترغیب دیتے ہیں جو شراب کے عادی نہیں ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے ارادوں میں پختہ ہوتے ہیں وہ ایسی لعنتوں کا شکار نہیں ہوتے ہیں مگر جن کی جبلت میں عیش کوشی ہوتی ہے وہ جلد ہی یسی برائیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کارپوریٹ اداروں میں اوقات کار بھی چاروں پہر ہوتے ہیں اور ہر ملازم کو باری باری سے تمام شفٹس میں کام کرنا پڑتا ہے۔ راتوں کے اوقات کام کرنے والے مخالف جنس ملازمین کا ایک دوسرے کے قریب آنا فطری امر ہے‘ جیسا کہ ہم نے اس سے قبل بھی بتایا کہ جب دو مخالف جنس تنہا ہوتے ہیں تو شیطان ملعون ان میں شہوانی جذبات کو بھڑکاتے ہوئے انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے۔سننے میں آتا رہتا ہے کہ ایک ہی ادارہ میں کام کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں میں جنسی تعلقات استوار ہوگئے ہیں جس کو عشق کا بھی نام نہیں دیا جاسکتا۔ ان اداروں میں کام کرنے والے کئی غیر مسلم ملازمین بغیر شادی کئے ہی ایک چھت تلے زندگی بسر کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جس کے لئے Live in کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین میں ایک طرح کی مسابقت پائی جاتی ہے۔ لڑکوں میں گرل فرینڈس کی تعداد کو کامیابی کا پیمانہ بنالیا گیا ہے تو بوائے فرینڈس نہ رکھنے والی لڑکیوں کو دقیانوسی سمجھا جاتا ہے۔ لڑکیوں میں ایک طرح کی رقابت پائی جاتی ہے۔ایک لڑکی جب اس کے بوائے فرینڈ؍فرینڈس سے ملنے والے تحفائف کی نمائش کرتی ہے تو دوسری لڑکی میں بھی اس جیسا لباس اختیار کرنے اور اس جیسے مہنگے سیل فونس رکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور قیمتی تحائف پانے یا اپنی ساتھی جیسا فیشن کرنے کیلئے وہ بھی برائی کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ ایک اور برائی جو ‘ان کارپوریٹ اداروں میں کام کرنے والوں میں سرایت کرگئی وہ یہ ہے کہ وہ ویک اینڈ پارٹیوں کے رسیا ہوگئے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ان پارٹیوں میں نہ صرف ہماری لڑکیاں رات دیر گئے تک شرکت کرتی ہیں جو ہر ہفتہ گروپ کے کسی ایک ممبر کے گھر پر یا ہوٹل میں منعقد ہوتی ہیں۔ ان پارٹیوں میں شرکت کرنے والیوں کو اپنے ہاں بھی ایسی پارٹیوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے والدین بھی اسے کارپوریٹ کلچر کا ایک حصہ تسلیم کرتے ہوئے اپنے بچے اور بچیوں کے لئے ایسی پارٹیوں کے گھر پر انصرام کی اجازت دے دیتے ہیں۔
کارپوریٹ کلچر نے مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو ختم کردیا
- Advertisement -
- Advertisement -