Wednesday, April 23, 2025
Homeٹرینڈنگکانگریس تاریخ بدلنے میں کامیاب ہوگی؟

کانگریس تاریخ بدلنے میں کامیاب ہوگی؟

- Advertisement -
- Advertisement -

نئی دہلی۔ آزاد ہندوستان کی سیاست میں کانگریس کو سب سے بڑی اور قدیم جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہے لیکن اس قدیم جماعت پر بھی کئی ایسے زمانے گزرے ہیں جہاں اسے مشکل ترین حالات سے گزرنا پڑاہے لیکن کئی مرتبہ اس نے کامیاب واپسی کی ہےاورانتخابات 2019 میں بھی سیکولرعوام امید کررہے ہیں کہ کانگریس اپنی تاریخ دہرائے گی۔

 نصف صدی سے زیادہ وقت تک دنیا سے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان پر حکومت کرنے والی کانگریس کو 70 کی دہے سے کئی مرتبہ برے حالات سے گزرنا پڑا اور ایسی صورت میں جب شمال اور مشرق کے علاقے میں اس کے قدم اکھڑ گئے تب جنوبی اور شمال مشرق اس ساتھ کھڑے نظر آئے ۔ ملک کی انتخابی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کانگریس کو 70 کے دہے سے لے کر اب تک کم از کم چھ مرتبہ عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے وقت میں جب اس کا اتر پردیش، بہار اورمغربی بنگال جیسی شمالی، وسطی اور مشرقی ریاستوں میں صفایا ہو گیا تب بھی جنوب کے کئی ریاستوں نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھامے رکھا۔ جنوبی ریاستوں کے علاوہ مہاراشٹر اور آسام بھی کانگریس کے برے وقت میں اس کے ساتھ کھڑے دکھائی دیئے ۔ کئی بار ہندوستان میں کانگریس کے خلاف ماحول بننے کا آندھرا پردیش، کرناٹک، کیرالہ، مہاراشٹر اور آسام میں اثر تک نظر نہیں آیا۔

آزادی کے بعد سے مرکز میں مسلسل حکومت چلا رہی کانگریس کو پہلی مرتبہ 1977 میں اقتدار مخالف لہر کا سامنا کرنا پڑا۔اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی جانب سے 1975 میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کئے جانے کے خلاف ناراضگی کا اثر 1977 کے انتخابات میں نظر آیا۔ کانگریس کے خلاف عوامی لہر سے اس کے قدم اکھڑ گئے اور وہ اقتدار سے باہر ہو گئی۔ ملک گیر سطح پر ناراضگی کے باوجود کانگریس نے ان انتخابات میں 154 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ شمالی اور وسطی ہندوستان میں اس کا تقریباً صفایا ہو گیا تھا۔ اس وقت جنوبی اور مغربی ریاستوں نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ اسے آندھرا پردیش میں 41، کرناٹک میں 26، گجرات اورآسام میں فی کس دس، کیرالہ میں 11، مہاراشٹر میں 20 اور تملناڈو میں 14 سیٹیں ملی تھیں۔

کانگریس کو 1977 کے بعد 1989، 1996، 1998، 1999 اور 2014 میں اقتدار مخالف لہر کی وجہ سے ابتر صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ سال 1989 میں بدعنوانی بالخصوص بوفورس اسکام کا معاملہ اچھال کر لڑے گئے انتخابات میں اقتدار مخالف لہر کی وجہ سے راجیو گاندھی حکومت چلی گئی تھی اور جنتا دل لیڈر وشوناتھ پرتاپ سنگھ حکومت بنانے میں کامیاب ہو ئے تھے ۔ ان انتخابات میں اتر پردیش، بہار، اڈیشہ اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں قدم اکھڑنے کے باوجود کانگریس کو 197 سیٹیں ملی تھیں۔ جنوبی اور شمال مشرقی ریاستوں کے علاوہ مہاراشٹر اس کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہا تھا۔ اس الیکشن میں کانگریس کو جہاں اترپردیش میں 15، بہار میں چار، گجرات میں تین، ہریانہ میں چار، مدھیہ پردیش میں آٹھ ، اڈیشہ میں تین، پنجاب میں دواورمغربی بنگال میں چار سیٹیں ملی تھی وہیں اسے آندھرا پردیش میں 39، کرناٹک میں 27، کیرالہ میں 14 اور مہاراشٹر میں 28 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ شمال مشرقی علاقے کی زیادہ تر سیٹیں کانگریس کو ملی تھیں۔

سال 1996 میں اقتدار مخالف لہر کی وجہ سے کانگریس کی پی وی نرسمہا راؤ حکومت پانچ سال کی اپنی مدت پوری کر کے دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں حکومت تشکیل دی گئی جو محض 16 دن ہی چل سکی تھی۔ بعد میں یونائیٹیڈ فرنٹ کی حکومت قائم ہوئی جس میں مسٹر ایچ ڈی دیوگوڑا اور مسٹر اندر کمار گجرال وزیر اعظم بنے ۔ دیوگوڑا 324 دن اور مسٹر گجرال 332 دنوں تک اقتدار میں رہے ۔ اس الیکشن میں کانگریس کو 140 سیٹیں ملی تھی۔ اتر پردیش، بہار، ہریانہ اور پنجاب میں اس زبردست دھکا لگا تھا۔ اترپردیش میں اسے پانچ، بہار میں دو، ہریانہ اور پنجاب میں دو، دو اور مدھیہ پردیش میں آٹھ سیٹیں ملی تھیں۔ مخالفت کے باوجود کانگریس پارٹی کو آندھرا پردیش میں 22، آسام میں پانچ، گجرات میں دس، کرناٹک میں پانچ، کیرالہ میں سات، مہاراشٹر میں 15، اڈیشہ میں 16 راجستھان میں 12 اور مغربی بنگال میں نو سیٹیں ملی تھیں۔

سال 1998 کے عام انتخابات میں بھی کانگریس کی مخالفت جاری رہی اور اس انتخاب میں وہ 141 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی تھی اور بی جے پی لیڈر اٹل بہاری واجپائی قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے ان انتخابات میں اتر پردیش اور دہلی میں کانگریس کا صفایاہوگیا تھا اور بہار، گجرات، ہریانہ اور مغربی بنگال میں وہ انتہائی کمزور ہو ئی تھی۔ بہار میں اسے پانچ، گجرات میں سات، ہریانہ میں تین اور مغربی بنگال میں ایک نشست ملی تھی۔

کانگریس کو اس الیکشن میں آندھرا پردیش میں 22، آسام میں دس، کرناٹک میں نو، کیرلا میں آٹھ ، مہاراشٹر میں 33، راجستھان میں 18، مدھیہ پردیش میں دس اور اڈیشہ میں پانچ سیٹیں ملی تھیں۔

کانگریس کی مخالفت کا سلسلہ 1999 کے انتخابات میں بھی نظر آیا اور اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد کی دوبارہ حکومت بنی۔ اس الیکشن میں بھی کانگریس کوئی کرشمہ نہیں دکھا سکی اور 114 سیٹ جیت کر پارلیمنٹ میں اب تک کی سب سے کم سیٹوں پر پہنچ گئی تھی۔ اس انتخاب میں اسے کرناٹک میں 18، مہاراشٹر میں دس، کیرلا میں آٹھ، آسام میں دس، مدھیہ پردیش میں 11، پنجاب میں آٹھ، راجستھان میں نو، اور گجرات میں چھ سیٹیں ہاتھ لگی تھیں۔ کانگریس کو اتر پردیش میں دس، بہار میں چار، مغربی بنگال میں تین، اڈیشہ اور تملناڈو میں فی کس دو سیٹیں ملی تھیں۔

منموہن سنگھ کی دس سالہ حکومت کے دوران بدعنوانی کو کے سلسلے میں 2014 میں پیدا ہوئی اقتدار مخالف لہر نے پارلیمانی تاریخ میں کانگریس کو اب تک کی سب سے بری حالت 44 سیٹوں پر پہنچا دیا تھا۔ اس الیکشن میں گجرات، ہماچل پردیش، جموں کشمیر، جھارکھنڈ، دہلی، اڑیسہ، راجستھان اور تملناڈو میں کانگریس کا کھاتہ بھی نہیں کھول سکی تھی ۔ اسے کرناٹک میں 9 ، کیرلا میں 8 ، مغربی بنگال میں چار، پنجاب میں تین، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، منی پور میں دو ، دو اور ہریانہ، چھتیس گڑھ، میگھالیہ اور میزورم میں فی کس ایک سیٹ ملی تھی۔ آندھرا پردیش میں دو، اروناچل پردیش میں ایک، آسام میں دو، بہار میں دو، اور اتر پردیش میں دو سیٹیں ملی تھیں۔