سری نگر : جموں کشمیر میں آرٹیکل 35اے کو لے کر کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔اور لوگوں میں خوف و حراس کا ماحول ہے۔دوسری طرف جموں کشمیر حکومت نے جمعہ کو ایک ایڈوائزری جاری کرکے وادی کشمیر میں موجود امر ناتھ یاتریوں اور سیاحوں کو فورا واپس چلے جانے کے لئے کہا گیا۔ایڈوائزری میں کہا گیا کہ انٹلی جنس اطلاعات ہیں کہ یاترا کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح جموں کشمیر کے کشتواڑ ضلع کی 43دنوں تک چلنے والی ”ماچھیل ماتا یاترا“کو سیکیوریٹی وجوہات کی بنا پرہفتہ کو روک دیا گیا۔حکام کی جانب سے لوگوں کو یاترا نہ شروع کرنے اور جو لوگ راستہ میں ہیں انہیں واپس لوٹنے کو کہا گیا ہے۔یہ یاترا 25کو شروع ہوئی تھی اور پانچ ستمبر کو ختم ہونی تھی۔اس کے علاوہ کشمیرگھاٹی میں 25ہزار فوجی دستوں کی مزید تعیناتی کی گئی ہے۔
کشمیر میں سیاحوں اور امرناتھ یاتریوں کے لئے وادی چھوڑنے کے تازہ حالات سے یہاں کے لوگوں کے درمیان خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔زیادہ تر لوگ آرٹیکل 35اے سے متعلق خبروں پر اظہار خیال کر رہے ہیں تو عام کشمیریوں کے لئے،فی الحال ترجیح با لکل مختلف ہے۔وہ لا اینڈ آرڈر کی حالت بگڑنے کے خدشات کے درمیان،فوری طور پر راشن،ادویات،خوردنی تیل،نمک،چائے،دالیں، سبزیاں اور دیگر ضروری اشیا ء ذخیرہ کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اے ٹی ایم،دوا کی دو کانوں پر بھیڑ لگ گئی ہے۔ساتھ ہی لوگوں نے کھانے کا سامان،پانی اور ضروری سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیا ہے۔پیٹرول پمپوں پر بھاری بھیڑ جمع ہو رہی ہے۔
اور وادی میں یہ افواہیں گشت کر رہی ہیں کہ مرکزی حکومت آرٹیکل 35اے کو منسوخ کر سکتی ہے۔واضح رہے کہ جموں کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی آئین ہند کے آرٹیکل 35اے سے متعلق کیس اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔بس افواہیں گشت کر رہی ہیں۔گورنر ستیہ پال ملک اور ان کے مشیروں نے اسے ”جنگلی افواہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر افواہوں کا مرکز رہا ہے۔مگر سب کچھ ٹھیک اور معمول کے مطابق ہے۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 35اے کو منسوخ کرنے کا کسی بھی سطح پر کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
جب پچھلے ہفتہ وادی میں مزید 10,000نیم فوجی دستے لائے گئے تھے،تو اسے سکیوریٹی فورسز کی معمول کی تحریک کہا گیا تھا۔خبروں کے مطابق 250مزید کمپنیوں (ایک کمپنی میں تقریبا 100کے قریب مرد) کو سری نگر پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے۔اعلیٰ ذرائع نے بتایا کہ 70کمپنیوں کو سری نگر پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا،جنمیں 34یہاں پہنچ چکی ہیں۔
اور حساس مقامات پر فوجی دستوں کی گشت جا ری ہے۔اطلاعات کے مطابق موبائل فون،سیلولر اور فکسڈ لائن انٹر نیٹ کی سہولت بھی ختم کر دی جائے گی۔مبینہ طور پر تمام کیبل ٹی وی آپریٹرز کو آپریشن بند کرنے لئے کہا گیا ہے۔
ریاستی پولیس اور فوجی دستوں سمیت حساس مقامات سی آر پی ایف،بی ایس ایف،ایس ایس بی اور آئی ٹی بی پی نے اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ آخر مرکز کیا کرنا چاہتا ہے۔۔؟جس طرح پچھلے دنوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود تین طلاق بل،منطور کرالیا،ساتھ ہی نیشنل میڈیکل میشن بل (این ایم سی) اور ان لافل ایکٹیوٹیز (پریوینشن) امینڈمنٹ بل“کو منظور پاس کیا گیا۔اسی طرح آرٹیکل 35اے کو منسوخ کرنے کی قبل از وقت تیاری تو نہیں ہے۔
یہ ایک ایسا سوال ہے جو ان دنوں کشمیری عوام اور سیاسی قائدین کے ذہنوں میں چل رہا ہے۔جس سے خوف و ہراس کا ماحول ہے۔اسی تشویش کے بیچ،پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی،پیپلز مومنٹ کے سربراہ شاہ فیصل،پیپلز کانفرنس کے لیڈر سجاد لون اور عمران انصاری کے ایک وفد نے گورنر سے ملاقات کی تھی۔
اسی سلسلہ میں ریاست کشمیر کے سابق وزیع اعلیٰ عمر عبد اللہ نے ریاستی گورنر ستیہ پال ملک سے ملاقات کی ہے۔گورنر سے ملاقات کے بعد میڈیا نمائندوں سے عمر عبد اللہ نے کہا کہ،ہمیں پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے۔اس لئے ایک وفد جس میں میں بھی شامل ہوں،گورنر سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ہم نے آرٹیکل 35اے اور آرٹیکل 370کو ہتانے کی خبر وں کے بارے میں بھی پوچھا ہے،جس پر انہوں نے یقین دلایا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔مگر ہم جموں۔کشمیر پر حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ میں بیان چاہتے ہیں۔