سری نگر۔ وادی کشمیر میں 117 دنوں سے جاری غیر یقینی صورتحال اور اضطرابی کیفیت کے درمیان جمعہ کے روز جہاں شہر سری نگر کے تمام علاقوں میں بازار نصف دن تک کھلے رہے وہیں پائین شہر کے نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد میں مسلسل 17 ویں جمعے کو بھی نماز جمعہ ادا نہیں کی گئی۔
یادرہےکہ مرکزی حکومت کے 5 اگست کے جموں کشمیر کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتال کا لامتناہی سلسلہ جاری ہوا تھا جو ہنوز جاری ہے۔
وادی میں جمعہ کےدن جہاں سری نگر کے پائین وبالائی علاقوں میں نصف دن تک تمام بازار کھلے رہے وہیں دیگر ضلع صدر مقامات وقصبہ جات میں بازار کہیں نصف دن تک تو کہیں نصف دن کے بعد کھل گئے۔ ادھر پائین شہر کے نوہٹہ میں واقع وادی کے سب سے قدیم معبد جامع مسجد میں مسلسل 17 ویں جمعے کو بھی نماز جمعہ ادا نہیں کی گئی۔ عینی شاہدین نے کہا کہ اگرچہ صبح کے وقت جامع مارکیٹ میں تمام دکان کھلے تھے لیکن بارہ بجنے سے قبل ہی وہ بند ہوگئے۔ جامع مسجد کے گرد پیش سیکورٹی کا حصار حسب دستور قائم تھا۔
قابل ذکر ہے جامع مسجد کے امام حی سید احمد سعید نقشبندی نے گزشتہ روز کہا تھا کہ جامع مسجد کے گرد وپیش سیکورٹی حصار کے پیش نظر جامع مسجد میں فی الوقت نماز جمعہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب جامع مسجد کے ارد گرد سیکورٹی حصار کو ہٹایا جائے گا تب جامع میں نماز جمعہ کی ادائیگی بحال ہوگی۔ انتظامیہ نے کہا ہے کہ جامع مسجد کے گرد وپیش تمام پابندیاں ہٹائی جاچکی ہیں اور نماز جمعہ کی ادائیگی پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔
تاریخی جامع مسجد سری نگر کو 2016ءمیں برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد 19 ہفتوں تک مقفل رکھا گیا تھا۔ کشمیر انتظامیہ نے تب جامع مسجد کو جولائی کے پہلے ہفتے میں مقفل کیا تھا اور انیس ہفتوں تک مقفل اور سیکورٹی فورسز کے محاصرے میں رہنے کے بعد اسے قریب پانچ ماہ بعد 25 نومبرکو جمعہ کی نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ 19 ویں صدی میں اس تاریخی مسجد کو سکھ حکمرانوں نے 1819ءسے 1842ءتک مسلسل 23 برسوں تک بند رکھا تھا۔ حریت کانفرنس (ع) کے چیئرمین میر واعظ مولوی عمر فاروق جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد خصوصی خطبہ دیا کرتے تھے تاہم ان کی لگاتار نظر بندی سے یہ سلسلہ مسلسل معطل ہے۔
وادی کی تمام سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل بدستور جاری وساری ہے اگرچہ نجی گاڑیوں کی آمد رفت زیادہ ہی ہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ درج کیا جارہا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق کئی روٹس پر اسکولوں کی خانگی گاڑیاں بھی نمودار ہونے لگی ہیں۔ وادی میں اگرچہ فون خدمات اور ریل سروس کی بحالی سے لوگوں کے مشکلات کا کسی حد ازالہ ہوگیا ہے لیکن انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات کی مسلسل معطلی لوگوں بالخصوص صحافیوں، طلبا اور تاجروں کے لئے مشکل بن گئی ہے۔