نئی دہلی۔ ویرات کوہلی نے بطور بیٹسمین کئی سنگ میل عبور کیے ہیں۔ تبصرہ نگار اور کرکٹ پنڈت یکساں طور پر ان کے بیٹ سے آنے والے ہر ایک شاٹ پرتبصرے کرتے جاتے ہیں۔ تاہم جب ان کی کپتانی کے کردار کی بات آتی ہے وہ بھی بڑے ٹورنمنٹس میں تعریفیں تیزی سے شدید تنقید میں بدل جاتی ہیں ، خاص طور پر ونڈے اور ٹی 20 میں تو حالات اور بھی مایوس کن ہیں ۔ کوہلی پر سب سے بڑی تنقید ان کی فیصلہ سازی رہی ہے جس نے آئی سی سی ایونٹس ، یا آئی پی ایل میں بھی اپنی ٹیم کو کوئی ٹرافی نہیں دلاسکے ۔ بطوربیٹسمین اپنی شاندار کامیابی کے لیے 32 سالہ کوہلی کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ وائٹ بال کرکٹ میں کپتانی کے فن میں مہارت حاصل کر چکے ہیں۔
پیر کو اسٹائلش کرکٹر نے بطور کپتان رائل چیلنجرز بنگلور (آر سی بی) کے لیے اپنا آخری میچ کھیلا۔ شارجہ میں منعقدہ اس آئی پی ایل 2021 ایلیمینیٹر میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز سے قریبی مقابلہ میں بنگلور کو شکست برداشت کرنی پڑی اور اس طرح کوہلی کی کپتانی میں کپ جیتنے کی آر سی بی کی امیدیں ختم ہو گئیں لیکن اس مقابلے میں بھی پہلی گیندڈالنے سے پہلے ہی ویرات کوہلی تنقید کی زد میں آگئے تھے جنہوں نے ایک سست سطح پر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلے کیا جس پر سوال اٹھایا گیا ہے ۔ وہ آر سی بی کی پوری اننگز میں شکوک و شبہات میں مبتلا دیکھائی دے رہے تھے ۔ آخر میں بنگلور 20 اوورز میں صرف 138 رنز بنا سکا۔ یہ کوہلی کی کپتانی کا اختتام ہے اور اب آر سی بی اگلے سال جب نیلامی ہو گی تو دوبارہ ٹیم اور تشکیل نو پر غور کرے گا۔
اس سے قبل انڈین پریمیئر لیگ کے دوسرے مرحلے کے آغاز پر 32 سالہ کوہلی نے سیزن کے اختتام پر کپتانی کے فرائض سے سبکدوشی کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔اپنے آخری میچ میں بطورآر سی بی کپتان ویرات کوہلی نے 33 گیندوں میں پانچ چوکوں کی مدد سے 39 رنز بنائے اور ان کی اننگز اس وقت ختم ہوئی جب وہ سنیل نارائن کے خلاف کلین بولڈ ہوئے۔کوہلی نے کہا ہے کہ سیزن میں بطور آر سی بی کپتان میں نے ایک ایسا کلچر بنانے کی پوری کوشش کی ہے جہاں نوجوان آکر کرکٹ کھیل سکیں۔ میں نے ہندوستانی سطح پر بھی ایسا کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی بہترین کوشش کی ہے ۔میں نے اپنا 120 فیصدحصہ اس فرنچائز کو دیا ہے اور اب میدان میں بطور کھلاڑی دینا جاری رکھوں گا۔ اگلے تین سالوں کے لیے فرنچائز کو دوبارہ منظم کرنے اور دوبارہ تشکیل دینے کا یہ بہت اچھا وقت ہے۔ میں ضرور آر سی بی کے لیے کھیلوں گا۔
ویرات نے بطور بیٹسمین آر سی بی کےلیے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، لیکن بطور کپتان وہ ٹیم کے لیے ایک بھی خطاب نہیں جیت سکے۔ انہیں نیوزی لینڈ کے ڈینیئل ویٹوری کے بعد 2011 میں بنگلور ٹیم کا کپتان بنایا گیا تھا۔ تب سے انہوں نے 11 سیزن میں ٹیم کی کپتانی کی لیکن ٹیم چمپئن نہیں بن سکی اور کوہلی کو اس سے ضرور تکلیف ہوگی۔ویرات کی کپتانی میں آر سی بی کی بہترین کارکردگی 2016 میں تھی جب ٹیم رنر اپ بنی اور اس سیزن کے دوران کوہلی نے چار سنچریوں کے ساتھ 900 سے زائد رنز بنائے تھے ۔
ان کی کپتانی میں آر سی بی نے آئی پی ایل میں جملہ 140 میچ کھیلے ہیں جس میں ٹیم نے 64 میچ جیتے ہیں اور 69 گنوائے ہیں۔ویرات کی بد قسمتی کی دوڑ صرف آئی پی ایل تک محدود نہیں ہے۔ ان کی کپتانی میں ہندوستان 2017 آئی سی سی چمپئنز ٹرافی فائنل ، 2019 آئی سی سی ورلڈ کپ سیمی فائنل اور پھر 2021 میں آئی سی سی ورلڈ ٹسٹ چمپئن شپ فائنل میں ٹرافی کے قریب پہنچا لیکن خطاب حاصل نہ کرسکا ۔ آخری مرتبہ ہندوستان نے آئی سی سی کا کوئی بڑا ایونٹ 2013 ایم ایس دھونی کی قیادت میں آئی سی سی چمپئنز ٹرافی کی شکل میں جیتا تھا ۔
آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں شروع ہونے کے بعد کوہلی اس ٹرافی کو حاصل کرنا چاہیں گے کیونکہ یہ ہندوستان کے ٹی 20 کپتان کے طور پر ان کا آخری ٹورنمنٹ ہوگا ۔ کوہلی کی قیادت میں ہندوستان کی فتوحات کا فیصد ایم ایس دھونی کے دور سے بہتر ہے ۔کوہلی کی قیادت میں ہندوستانی ٹیم نے 45 بین الاقوامی ٹی 20 مقابلے کھیلے ہیں جس میں اسے 27 فتوحات حاصل ہوئی ہیں اور کامیابی کا تناسب 65.11 ہے۔