Wednesday, April 23, 2025
Homeٹرینڈنگکٹھوعہ عصمت ریزی مقدمہ میں 3ملزمان کوعمر قید کی سزا

کٹھوعہ عصمت ریزی مقدمہ میں 3ملزمان کوعمر قید کی سزا

- Advertisement -
- Advertisement -

پٹھان کوٹ۔ پنجاب کے ضلع پٹھان کوٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے آج صوبہ جموں کے ہندو اکثریتی ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاﺅں میں 2018ءکے جنوری میں پیش آئے 8 سالہ کمسن بکروال لڑکی کی وحشیانہ عصمت ریزی و قتل مقدمہ کے 8 میں سے 6 ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے تین کو عمر قید کی سزا جبکہ دیگر تین کو فی کس پانچ سال قید کی سنائی۔

کورٹ نے ساتویں ملزم وشال جنگوترا کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بناءپر بری کردیا۔ آٹھواں ملزم جو کہ نابالغ ہے اور جس نے کمسن بچی پر سب سے زیادہ ظلم ڈھایا تھا، کے خلاف ٹرائل عنقریب جوینائل کورٹ میں شروع ہوسکتی ہے ۔مقدمہ کے ملزمان میں عصمت دری و قتل واقعہ کے منصوبہ ساز سانجی رام، اس کا بیٹا وشال جنگوترا، سانجی رام کا بھتیجا (نابالغ ملزم)، نابالغ ملزم کا دوست پرویش کمار عرف منو، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی عہدیدار سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈکانسٹیبل تلک راج شامل تھے ۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج پٹھان کوٹ ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے منصوبہ ساز سانجی رام، پرویش کمار اور ایس پی او دیپک کھجوریہ کو تاحیات قید کی سزا جبکہ دیگر تین بشمول ایس پی او سریندر کمار، سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو فی کس پانچ سال قید کی سزا سنائی۔ جج نے سانجی رام کے بیٹے وشال جنگوترا کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بناءپر بری کردیا۔

چارج شیٹ میں سانجی رام پر عصمت دری و قتل کی سازش رچانے ، وشال، نابالغ ملزم، پرویش اور ایس پی او دیپک کھجوریہ پر عصمت دری و قتل اور ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتیعہدیدار تلک راج و آنند دتا پر جرم میں معاونت اور شواہد مٹانے کے الزامات لگے تھے ۔

متاثرہ 8 سالہ بچی کے والد کے ذاتی وکیل مبین فاروقی نے عدالت کے احاطے میں میڈیا کو بتایا کہ ملزمین کو سزائیں ملنے سے سچ کی جیت ہوئی ہے ۔ یہ جیت تمام طبقات ہندو، مسلم، سکھوں اور عیسائیوں کی کامیابی ہے ۔ ملزمان کے وکیل اے کے ساونی نے کہا کہ جج صاحب ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے ایک سال تک اس مقدمہ کے سوا کوئی دوسرا مقدمہ ہاتھ میں نہیں لیا۔ اس کے لئے ہم اُن کی ستائشکرتے ہیں۔ اب سوال ہے کہ ہم نے بحیثیت وکلاءصفائی آج کیا کھویا کیا پایا۔ وشال جنگوترا کی جیت ہوئی ہے ۔ وہ مقدمہ میں کہیں بھی ملوث نہیں تھے ۔ تین ملزمان سانجی رام، دیپک کھجوریہ اور پرویش کو قتل، اجتماعی عصمت ریزی، اغوا ، سازش اور غیر قانونی حراست سے متعلق دفعات کے تحت سزا سنائی گئی۔ دیگر ملزمان سب انسپکٹر آنند دتا، ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور ایس پی او سریندر کمار کو شواہد مٹانے سے متعلق دفعہ 201 کے تحت سزا سنائی گئی۔

ملزمان کے ایک اور وکیل انکر شرما نے کہا کہ ہم فیصلے سے بہت حیران ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ یہ ایک برا فیصلہ ہے ۔ یہ ایک متعصبانہ فیصلہ ہے ۔ ہم اس کو چیلنج کریں گے ۔ ہم فیصلے کی کاپی حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ عتدالوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔3 جون کو جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے استغاثہ اور وکلاءصفائی کی طرف سے پیش کئے گئے حتمی دلائل سننے کے بعد مقدمہ کا فیصلہ محفوظ رکھا تھا اور اسے 10 جون کو سنانے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ کٹھوعہ معاملہ بعض سیاسی جماعتوں کے لیڈرکی طرف سے ملزمان کو بچانے کی کوششوں، ہندو ایکتا منچ نامی تنظیم کی طرف سے ملزمان کے حق میں ترنگا بردار جلوس نکالنے ، کٹھوعہ میں وکلاءکی جانب سے کرائم برانچ کو ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنے سے روکنے اور متاثرہ کنبے کے سماجی بائیکاٹ کے سبب عالمی سطح پر خبروں میں رہا۔ بچی کے حق میں درجنوں ممالک میں ریلیاں نکالی گئی تھیں۔

یاد رہے کہ مقدمہ کی ان کیمرہ اور روزانہ بنیادوں پر سماعت قریب ایک سال تک جاری رہنے کے بعد 3 جون کو اختتام پذیر ہوئی اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے 10 جون کو سنانے کا امکان ظاہر کیا تھا۔سپریم کورٹ کے احکامات پر 31 مئی 2018ءکو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ پٹھان کوٹ میں مقدمہ کی ان کیمرہ اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی تھی۔ اس دوران عدالت میں مقدمہ کی قریب 275 سماعتیں ہوئیں اور132 افراد عدالت میں بطور گواہ پیش ہوئے ۔

مقدمہ کی تحقیقات جموں وکشمیر پولیس کی کرائم برانچ نے کی تھی اور ملزمان کے خلاف چارج شیٹ9 اپریل 2018ءکو پیش کی تھی۔ کرائم برانچ نے تحقیقات کے دوران 130 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے تھے جن میں سے استغاثہ کی طرف سے 116 گواہ عدالت میں پیش کئے گئے ۔ ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے چند گواہ عدالت میں اپنے اعترافی بیانات سے منحرف بھی ہوئے ۔

ضلع انتظامیہ پٹھان کوٹ نے عدالت کے اردگرد تین دائروں والی سیکورٹی کا بندوبست کیا تھا۔ کسی بھی فرد بشمول میڈیا کو عدالتی کمرے کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جبکہ ملزمان کو پنجاب پولیس نے بلٹ پروف گاڑی میں عدالت لایا۔

استغاثہ کی طرف سے مقدمہ کی پیروی اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا نے کی جبکہ انہیں متعدد دیگر وکلاءبشمول کے کے پوری، ہربچن سنگھ اور مبین فاروقی (متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل) ان کے معاون تھے ۔ ملزمان کی طرف سے مقدمہ کی پیروی اے کے ساونی، سوباش چندر شرما، ونود مہاجن اور انکر شرما نے کی۔

قابل ذکر ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاوں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو10 جنوری 2018ءکو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے مئی کے مہینے میں واقعہ کے تمام8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا تھا کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گاﺅں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور نقل مکانی پر مجبورکرنا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔