اطہر معین
حج کیمپ سے عازمین حج کی روانگی کی رپورٹنگ کرتے ہوئے صحافی حضرات دل پر پتھر رکھ کر یہ لکھ تو دیتے ہیں کہ روانگی کے وقت روح پرور منظر تھا مگرحقیقت تویہ ہے کہ حج ہاؤز نامپلی کے احاطہ میں قائم حج کیمپ میں عازمین حج کی روانگی کا جو منظر ہوتاہے وہ روح فرسا ہے۔جو کچھ ان دنوں وہاں دیکھنے کو آرہاہے اگر احتیاط کو ملحوظ رکھیں تو کم ازکم اسے بے ہودگیوں سے تعبیر کرنا پڑے گا۔عازمین حج کو روانہ کرنے سے قبل جو اسٹیج سجایا جاتا ہے اس پر جگہ پانے کے لئے سیاسی کارکن اوچھی حرکتیں کرنے لگے ہیں۔ عازمین سے خطاب کے لئے مدعو کچھ اعلیٰ قسم کے سیاسی قائدین کی جو تقاریر ہورہی ہیں اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ ان کے سیاسی آقاؤں کی جو کرم فرمانیاں ان پر ہوئی ہیں وہ اس کا حق ادا کررہے ہیں ۔ علماء و مشائخین کو بھی عازمین حج سے خطاب کے لئے مدعو کیا جاتا ہے جو ایک رسم کی ادائی کے سواء کچھ نہیں ہے۔ وہ سفر حج پر روانہ ہونے والے خوش نصیب ضیوف الرحمن کو مناسک حج کی ادائی کے دوران جو احتیاط کو ملحوظ رکھنا ہے اس پر روشنی تو ڈالتے ہیں مگر حج کیمپ میں جو کچھ ہورہا ہے شائد وہ نہیں دیکھ پارہے ہیں یا پھر ان میں بھی اتنی جرأت باقی نہیں رہی کہ وہ اپنے ساتھ شہ نشین پر بیٹھنے والے سیاسی قائدین اور حج کمیٹی کے ذمہ داروں کو پند و نصحیت کریں کہ دوسروں کی عبادت کواپنی ریاکاری اور شہرت پانے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ عازمین حج کی بسوں کو جھنڈی دکھانے کے وقت تو سیاسی کارکن تصویر کے فریم میں آنے کی خاطر ایسی دھینگا مشتی کرتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر شریر بچے بھی شرما جائیں۔اس وقت ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہوجاتا ہے جو اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک ان کی تصویر کشی کرنے والے فوٹوگرافرس تصویریں کھینچنا بند نہ کردیں۔حج ہاؤز کے درودیوار کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہاں سے عازمین حج کو روانہ نہیں کیا جاتاہے بلکہ یہاں ابھی ابھی زرعی مارکیٹ کمیٹی کے انتخابات ہوئے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز برسراقتدار سیاسی پارٹی کے قائدین میں ایک قسم کی مسابقت نظر آتی ہے کہ کس کا بیانر کتنا پرکشش ہے اور کس کوکتنی نمایاں جگہ ملی ہے۔پوسٹر بازی کی جدت کو دیکھ کر کوئی حکومت سے یہ مطالبہ نہ کربیٹھے کہ حج کیمپ کے اختتام پران پوسٹر مقابلوں پر انعام رکھ دیا جائے۔ حج، رب کے لئے کی جانے والی ایک خالص عبادت ہے مگر اس کو سیاست زدہ کردیا گیا ہے۔ سیاسی قائدین ، عازمین حج کی خدمت کے نام پر اپنی سیاسی دکان چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی غیرت مند ایسا نہ ہوگا جو ان حرکتوں کو گوارہ کرے ۔ ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ہمارے سیاسی کارکنوں کو عازمین حج کی نام نہاد خدمت کا خیال انہی دنوں میں آتا ہے جب ان کی پارٹی برسراقتدار رہتی ہے۔ ان کی پارٹی کے اپوزیشن میں جاتے ہی یہ سیاسی کارکن بھی بلا لحاظ پارٹی حج کیمپ سے غائب ہوجاتے ہیں ۔ شائد ان کے اپوزیشن میں چلے جانے سے حج کی شرعی اہمیت گھٹ جاتی ہے یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ صرف اقتدار میں رہنے پر ہی عازمین حج کی خدمت کرنی چاہئے۔ اس کے برخلاف ملت کے نوجوانوں کا ایک خاموش گروہ بھی ہے جو ہر سال پابندی سے عازمین حج کی خدمت ڈسپلن کے ساتھ انجام دیتا ہے ، یہ نہ ہی تصویروں میں آتے ہیں اور نہ ہی حج کیمپ میں سربراہ کی جانے والی اشیائے خوردو نوش استعمال کرتے ہیں۔کاش کہ ریاکاری کوچھوڑ کر اللہ کی رضا کے لئے عازمین حج کی دل سے خدمت کی جاتی۔