نئی دہلی ۔ ہندوستان اس وقت افراتفری کے ماحول سے گزرہا ہے اور ان پریشان کن حالات میں دہلی اسمبلی انتخابات پر سب کی نظریں مرکوز ہیں جہاں این آر سی کی حمایت اور مخالفت کی لڑائی میں پی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے ساتھ کانگریس کے پھر سے عروج پر پہنچنے کی امیدیں عوام میں دلچسپی کے موضوعات ہیں ۔
دہلی اسمبلی کے انتخابات میں اب ایک ماہ بھی نہیں رہا ہے اور آج کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ برسر اقتدار جماعت جس کو صرف کیجریوال حکومت کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا اس کی واپسی یقینی ہے، لیکن صورتحال بدل بھی سکتی ہے اور ایسا دہلی نے ماضی میں دیکھا بھی ہے۔
سال2013 میں ہر آدمی یہی کہہ رہا تھا کہ دہلی میں شیلا ڈکشت کے لئے کوئی پریشانی نہیں ہے اور وہ بہ آسانی کامیابی حاصل کرلیں گی لیکن نتائج میں ان کی پارٹی تیسرے نمبر پر آئی تھی اور صرف آٹھ سیٹیں ہی جیت پائیں، جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن تھے کیونکہ مسلمانوں نے کانگریس کے خلاف اس لہر میں بھی شیلا ڈکشت کا دامن تھامے رکھا تھا۔ سابق چیف منسٹر مرحومہ شیلا ڈکشت کی قیادت میں کانگریس نے 3 انتخابات جیتے اور ایک گنوایا۔
جن انتخابات میں ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا وہ سال 2013 کے انتخابات تھے۔ وہ سال 2013 کے انتخابات جیت سکتی تھیں اور چوتھی مرتبہ چیف منسٹر بن سکتی تھیں لیکن انہوں نے ان اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا جو ریاست دہلی کی ترقی کو روکتے تھے۔ ان کے لئے بھی بجلی میں سبسڈی دینا اور پانی کو مفت کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ پندرہ سال کے اقتدار میں ان کو اتنا تو اندازہ تھا کہ کس شعبہ کا فنڈ کس شعبہ میں کیسے کیا جا سکتا ہے اور پرائیویٹ بجلی کمپنیوں کو کیسے خوش کیا جا سکتا ہے لیکن انہوں نے ایسا اس لئے نہیں کیا کیونکہ دہلی کی مجموعی ترقی متاثر ہوتی۔
ان کو معلوم تھا کہ یہ دو دھاری تلوار ہے ایک جانب ریاست کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے درکار فنڈ میں کمی آجاتی ہے جس کی وجہ سے ریاست میں ترقی ممکن نہیں ہوتی اور دوسری جانب اگر عوام کو مفت خوری کی عادت پڑ جائے تو وہ عوام ترقی نہیں کر پاتی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شیلا ڈکشت کے زمانہ کی ترقی آج بھی نظر آتی ہے۔ آج دہلی میں مفت پانی اور بجلی میں زیرو بل کی ضرور بات ہو رہی ہے اور دہلی کے 28 لاکھ صارفین کے بجلی کے بل زیرو آئے ہیں لیکن ترقی کے نام پر کچھ نہیں ہوا ہے۔ دہلی کے تعلیمی نظام کو دیکھا جائے، جس کی سب سے زیادہ تشہیر ہوتی ہے اس میں گزشتہ پانچ سال میں ایک بھی نیا اسکول شامل نہیں ہوا ہے جبکہ عام آدمی پارٹی نے پانچ سو نئے اسکول کھولنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اسکولوں میں نیا پلاسٹر اور سفیدی ضرور زیادہ نظر آتی ہے لیکن دسویں اور بارہویں کے نتائج پہلے سے کافی گر گئے ہیں جو ایک تشویش کا پہلو ہے، کیونکہ اسکول کی پہچان اس کے نتائج سے ہوتی ہے۔ ایک بھی نیا کالج یا نئی یونیورسٹی نہیں کھولی گئی۔
صحت کے نظام کو دیکھا جائے تو جن محلہ کلینک کی بات ہوتی ہے ان کی جو حالت ہے اور اس میں جو کرپشن ہے جو سب پر عیاں ہے، ان کی وجہ سے دہلی میں پہلے سے موجود ڈسپنسری نظام ختم ہو گیا ہے کیونکہ محلہ کلینک صرف پارٹی کے لوگوں کی مالی مدد اور خوش کرنے کے لئے شروع کیے گئے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں نہ تو کوئی نیا اسپتال کھولا گیا اور نہ ہی نئے بیڈ کا اضافہ کیا گیا۔ ٹرانسپورٹ کا حال یہ ہے کہ ڈی ٹی سی میں پچھلے پانچ سال میں ایک بھی نئی بس نہیں خریدی گئی ہے۔
میٹرو کے فیز چار میں کتنے مسائل کھڑے ہوئے اور کتنی تاخیر سے شروع ہوئی۔ انفراسٹرکچر کے نام پر دہلی میں کچھ نہیں ہوا، گزشتہ پانچ سال میں صرف تین کلومیٹر کی سڑک بنی ہے، نہ ہی کوئی نیا فلائی اوور بنا، بس باراپولا فلائی اوور پر ہی پہلے کے منصوبوں پر عمل ہوا ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ پیسے کی کمی ہے۔
دہلی میں تجارت اور نوکری کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہے، دونوں ہی محاذ پر ریاستی اور مرکزی حکومت ناکام ہیں، انہیں کوئی فکر بھی نہیں ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے کاروبار بری طرح متاثر ہیں اور عالمی مندی کی وجہ سے لوگوں کی نوکریاں جا رہی ہیں۔ ستم بالائے ستم شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی پر سماج منقسم نظر آرہا ہے۔ اس لئے تجارت، بے روزگاری، سی اے اے اور طلباءکے خلاف تشدد، دہلی کے انتخابات میں بڑے موضوعات رہیں گے۔ بی جے پی جہاں غیر منظورشدہ کالونیوں کو منظوری دینے اور شہریت ترمیمی قانون اور قوم پرستی پر انتخابات لڑے گی
وہیں عام آدمی پارٹی مفت پانی، بجلی، تعلیم اور صحت میں اپنی کارکردگی پر خوب بڑھ چڑھ کر بیان بازی اور اشتہار بازی کرے گی، تیسری جانب کانگریس اپنے دور کے کام اور سماج میں موجود بے چینی جیسے موضوعات لیکر عوام کے پاس جائے گی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے ٹی وی پر صرف کیجریوال کے اشتہار دیکھے جا سکتے ہیں اور یہ پیسہ دہلی کے عوام کا ہے۔
بی جے پی کا اپنا 33 فیصد کا ایک کیڈر ووٹ مانا جاتا ہے جو اس کو خراب سے خراب حالت میں بھی مل جاتا ہے۔ سال 2013 میں بی جے پی کو 33 فیصد ووٹ ملے تھے اور اسے 32 سیٹیں ملی تھیں، لیکن سال 2015 میں اس کو 32.3 فیصد ووٹ ملے تھے، لیکن صرف تین سیٹیں ہی ملی تھیں۔ بی جے پی کو اتنی کم سیٹیں ملنے کی وجہ کانگریس کو ملا ووٹ تھا۔ کانگریس کو سال 2013 میں 24 فیصد ووٹ ملا تھا جبکہ سال2015 میں اس کو محض 9.7 فی صد ووٹ ملا تھا اور عام آدمی پارٹی کا ووٹ سال 2013 کے 29 فیصد سے بڑھ کر 54.3 فیصد ووٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے کانگریس آٹھ سیٹوں سے صفر پر آ گئی تھی اور عام آدمی پاری 28 سے 67 سیٹوں پر پہنچ گئی تھی۔ اس لئے ان انتخابات کی کنجی کانگریس کے پاس ہے۔
عام آدمی پارٹی کی یہ کوشش ہے کہ کانگریس کو انتخابی تصویر سے دور رکھا جائے تاکہ اس کو کامیاب ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو، کیونکہ عام آدمی پارٹی کی کارکردگی لوک سبھا، کارپوریشن اور دہلی یونیورسٹی طلباء یونین کے انتخابات میں بہت خراب رہی ہے۔
ان انتخابات میں کانگریس کے لئے یہ اچھا ہے کہ اس کی جھارکنڈ سمیت کئی ریاستوں میں انتخابی کارکردگی اچھی رہی ہے اور شہریت ترمیمی قانون اور طلباءکے احتجاج میں وہ مرکز میں دکھائی دی ہے۔ اگر ان وجوہات کی بنیاد پر عوام نے کانگریس پر اعتماد کا اظہار کیا تو عام آدمی پارٹی کے لئے پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ ایک بات صاف ہے دہلی میں بی جے پی کو جو بھی ووٹ مل سکتے ہیں وہ نریندر مودی کے نام پر ہی مل سکتے ہیں کیونکہ پارٹی سے بی جے پی کے اپنے ووٹر بھی بہت ناراض ہیں اور شائد وہ ووٹ ڈالنے کے لئے بھی نہ نکلیں۔
دہلی بی جے پی کے لئے ایک بڑا دھکا ثابت ہو سکتا ہے۔عام آدمی پارٹی کی کارکردگی دہلی کے علاوہ کسی بھی ریاست میں اچھی نہیں رہی ہے اور دہلی میں جس طرح غیر مسلم ووٹر کو ناراض نہ کرنے کی غرض سے کیجریوال نے شہریت ترمیمی قانون کے احتجاجوں سے خود کو دور رکھا ہے وہ ان کے لئے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔ اس کے لئے ٹینا فیکٹر اگر کام کر گیا تو وہ کچھ بہتر کر سکتے ہیں نہیں تو اس کے لئے بھی راہ اتنی آسان نہیں ہے کیونکہ ٹکٹ تقسیم کے وقت جن ارکان اسمبلی کو پارٹی ٹکٹ نہیں دے گی وہ بغاوت کرے گا اور یہ بغاوت یقیناً کانگریس کو فائدہ پہنچائے گی۔ دہلی کے انتخابات بہت دلچسپ رہیں گے اور اگر یہاں بھی بی جے پی کی شکست جاری رہی تو یہ سیدھا نریندر مودی کی قیادت پر سوال کھڑے ہوں گے یعنی دہلی کی شکست بی جے پی کی نہیں مودی کی شکست ہوگی۔