حیدرآباد ۔ ہندوستان میں معاشی بحران کے بتدریج طاقتور ہونے کے کئی ایک مثالیں سامنے آرہی ہیں یہی وجہ ہیکہ ریاست تلنگانہ میں سرکاری اور خانگی امور پر بھی اس کا اثر پڑ رہا ہے اور اب تو ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر کے خوابوں کی تعمیر اسمبلی اور سکریٹریٹ کی نئی عمارتوں پر بھی معاشی بحران کے سیاہ بادل چھانے لگے ہیں اور ایسا لگتا ہیکہ شاید یہ پراجکٹ برف دان کی نذر ہوجائیں گے۔
اسمبلی میں پیش کردہ ریاستی بجٹ 2019-20ءکے بعد یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ ہندوستان میں بڑھتے معاشی بحران کا تلنگانہ کے نئے سکریٹریٹ اور اسمبلی کی تعمیرات پر بھی اثر ہورہا ہے؟ اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ کے دوران کہا گیا ہیکہ سکریٹریٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کیلئے ایک کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے حالانکہ اس عمارت کی تعمیر کیلئے 500 کروڑ روپئے کا بجٹ درکار ہے۔
اس کے علاوہ بجٹ تقرر کے دوران چیف منسٹر کے سی آر نے کہا ہیکہ ریاستی تمام وزراءکو ہدایت دی گئی ہیکہ وہ اپنے محکمہ اور شعبہ جات میں پہلے تمام موجودہ امور اور پراجکٹس کی تکمیل پر توجہ مرکوز کریں اور جب تک موجودہ بلز مکمل نہیں ہوجاتے تب تک کوئی نیا کام شروع نہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو حالات سے واقف کروانے کیلئے کوئی کام درپردہ نہ کیا جائے۔
ایک جانب سکریٹریٹ کی نئی عمارت کیلئے جہاں 500 کروڑ روپیوں کا بجٹ منظور کیا جانا تھا اس میں صرف ایک کروڑ روپئے ہی منظور کئے گئے ہیں اور اس کے برعکس 600 کروڑ روپئے کے مصارف سے تیار کی جانے والی اسمبلی کیلئے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت صرف سکریٹریٹ کی موجودہ عمارت کے انہدام کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ نئی عمارت کی تعمیر کا فیصلہ بعد میں لیا جائے گا۔