نئی دہلی ۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی پر30 جنوری1948 سے پہلے بھی انہیں قتل کرنے کے لئے ملک میں پانچ مرتبہ جان لیوا حملے ہوئے تھے اور شہید ہونے سے40 سال قبل بھی انہوں نے جنوبی افریقہ میں اپنے اوپر ایک حملے کے بعد ہے رام کہا تھا۔ ایک حملے میں تو گاندھی کے ساتھ ساتھ پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی قتل کرنے کی سازش رچی گئی تھی ۔ یہ انکشافات بابائے قوم مہاتما گاندھی کی 150 ویں سالگرہ کی تیاریوں کے ضمن میں منعقد ایک سیمنار میں مشہور گاندھی وادی اورگاندھی امن ادارے کے صدر کمار پرشانت نے کئے ہیں ۔ یہ سیمنار رضا فاؤنڈیشن نے منعقد کیا تھا ۔ واضح رہے کہ مسٹر پرشانت کی ایک تقریر میں گاندھی جی کے قتل میں سنگھ پریوارکے ملوث ہونے کی بات کہنے پر اڈیشہ میں ان کے خلاف دو ایف آئی آر درج ہو چکے ہیں ۔
لوک نائک جے پرکاش نارائن کے داماد پرشانت نے لیکچر میں تمام حملوں کے بارے میں تفصیل سے نہیں بتایا لیکن گاندھی مارگ میگزین کے نئے شمارے میں اس تعلق سے ایک طویل مضمون لکھا ہے ۔انہوں نے اپنے لیکچر کے شروع میں کہاکہ گاندھی جی نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ میری زندگی ہی میرا پیغام ہے لیکن ان کی موت بھی ایک پیغام ہے ۔
دھرم یوگ سے اپنی صحافت شروع کرنے والے پرشانت نے کہاکہ گاندھی جی جب جنوبی افریقہ میں تھے اس کے بعد سے ان پر حملے ہوتے رہے اور ہر مرتبہ انہوں نے حملہ آوروں کو معاف کر دیا کیونکہ وہ عدم تشدد میں یقین رکھتے تھے ۔ ایک حملہ آور میر عالم تو بعد میں ان کا حامی بن گیا ۔ انہو ں نے کہا کہ 10 فروری 1908 میں گاندھی جی پر جنوبی افریقہ میں جب جان لیوحملہ ہوا تو انھون نے اس وقت بھی ہے رام بولا ۔
مختلف اخبارات میں کالم نگار رہے پرشانت نے کہا کہ گاندھی جی کے رام انہیں خوف سے آزاد کرنے والے رام تھے ، وہ ان کے لئے دشرتھ کے بیٹے رام نہیں تھے ۔ ان کے رام ان کے ساتھ زندگی بھر رہے اور انہیں موت سے کبھی خوف نہیں ہوا ۔ انہوں نے اپنے اوپر ہوئے حملے کے تعلق سے کبھی کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ اس بارے میں لکھا ۔ انہوں نے کہا کہ جب 30 جنوری 1948 سے دس دن پہلے ان کی پراتھنا سبھا میں مدن لال پاہوا نے بم دھماکہ کیا جس میں گاندھی کے ساتھ نہروکو بھی جان سے مار ڈالنے کی منصوبہ بندی ساورکر نے کی تھی لیکن بم کچھ فاصلے پر پھٹا جس سے کوئی حادثہ نہیں ہوا لیکن گاندھی جی نے اسے عا م واقعہ کے طور پر لیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔
انہوں نے کہا کہ سردار پٹیل نے جب خفیہ رپورٹ کو دیکھتے ہوئے گاندھی جی کی پراتھنا سبھا میں سکیورٹی انتظامات اور لوگوں کی تلاشی کرنے کی تجویز پیش کی تو گاندھی جی نے اس سے انکار کر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی جی زندگی بھر اکیلے رہے کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا جبکہ انہوں نے آزادی کی لڑائی میں سب کو ساتھ لیا لیکن آزادی سے قبل ہی گاندھی کے راستے سے تمام الگ تھلگ ہو گئے اور لوگ دوسرے راستے پر چلنے لگے اور آج تو لوگ گاندھی جی کے راستے کے خلاف چلنے لگے ۔
انہوں نے گذشتہ دنوں گاندھی مارگ میگزین میں60 صفحے کے مضمون میں گاندھی پر ہوئے قاتلانہ حملوں کی تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں جس نے اس حملے کے پیچھے سنگھ پریوار کا ہاتھ بتایا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ گاندھی پر پہلا حملہ 1934 میں پونے میں ہوا ۔ دوسرا حملہ 1944 کو پونے کے نزدیک پنچ گنی میں ہوا ۔ تیسراحملہ 1944 میں سیواگرام میں اور چوتھا 30 جون 1946 میں پونے کے راستے میں ٹرین پلٹنے کی سازش رچی گئی جب وہ اسی ٹرین سے جا رہے تھے ۔