نئی دہلی – ۔کوئی بھی معصوم کس طرح اپنی جان کی حفاظت کرسکتا ہے جب اس کا دشمن اس کے اطراف میں ہی موجود رہتا ہو اور موقع کی تلاش میں ہو کہ کب اسے موقع ملے اور وہ ہجومی تشدد کے پردے میں اسے موت کے گھاٹ اتار دے ۔ ان دنوں ہندوستان میں ہجومی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو موت کی نیند سلانے کے خطرناک رحجانات عروج پر ہیں اور اس کا نشانہ زیادہ تر اور اگر کہا جائے کہ صرف اور صرف مسلم افراد کی اکثریت ہی ہے تو درست ہوگا ۔
تمہید باندھنے کا مقصد صرف اور صرف جھارکھنڈ میں 24 سالہ مسلم نوجوان تبریز انصاری کے دردناک واقعہ کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے جو کہ ایک یتیم ہونے کے علاوہ اپنے آبائی گاؤں اس امید اور زندگی کے سب سے خوبصورت لمحات اپنی آنکھوں میں سجائے آیا تھا کہ جب وہ اپنے آبائی گاوں سے ملازمت کے گاوں پونے واپس جائے گا تو اس کی شریک حیات بھی اس کے ساتھ ہوگی لیکن ظالموں نے اس کی ساری امیدوں کو موت کی نیند کے ساتھ ختم کرنے کے علاوہ اس معصوم لڑکی کے خوابوں پر بھی پانی نہیں بلکہ خون پھیر دیا ہے جس نے اپنے آنکھوں میں سجائے تھے ۔
تبریز انصاری جھارکھنڈ کے ایک دیہات کا رہنا والا تھا جو پونے میں کسب معاش کیلئے سرگرم رہتا تھا لیکن دائیں بازوں کے غنڈہ عناصر نے اس نوجوان کو پیٹ پیٹ کر پولیس کے حوالہ کردیا جس کی بعد میں موت ہوگئی ۔ غنڈہ عناصر نے پہلے اسے گاڑی چوری کرنے کا الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا جو ظاہر ہے کہ ایک بہانہ ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ جب ہجوم اس کی پٹائی کررہا تھا تب ایک شخص اسے جئے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کررہا تھا ۔ تبریز انصاری کو برقی کے کھمبے سے باندھ کر پیٹا گیا اور ساری رات اسے مارا گیا اور جب پولیس مقام واردات پر پہنچی تو تبریز کو قریبی دواخانہ منتقل کرنے کے بجائے اسے ساری رات سلاخوں کے پیچھے بے یارومددگار بندکردیا گیا ۔
ایک جانب مسلم نوجوان کے ساتھ غنڈہ عناصر کے ظلم و بربریت کی یہ داستان رہی تو دوسری جانب پولیس کا کردار بھی مشکوک رہا کیونکہ تبریز انصاری پر لگائے جانے والے الزامات کی بعد میں تحقیقات بھی ہوسکتی تھیں جبکہ پہلے تو اس بے چارے کو دواخانہ منتقل کیا جاتا تو کم ازکم اس کی جان تو بچ جاتی ۔ تبریز کو دواخانہ منتقل نہ کرنے کے علاوہ پولیس مقام واردات سے کسی بھی ظالم کو فوراً حراست میں نہیں لیا اور یہ حرکت بھی قابل مذمت ہے ۔ تبریز پر ہندتوا غنڈوں کی دہشت گردی کا جب ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو پولیس بھی کچھ حرکت میں آئی لیکن جب تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔
اب اگر ہندوتوا کے غنڈہ عناصر سرعام مسلمانوں کو پکڑ کر مارپیٹ کرتے ہوئے انہیں جے شری رام اور جے ہنومان کے نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ حکومت ملک کو ہندو راشٹریہ ہونے کا اعلان کردے ۔ آخر کیوں دو رنگی دکھائی جارہی ہے ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی اپنی دوسری میعاد کی حلف برداری کے موقع پر سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس کا نعرہ لگایا تھا لیکن ان کے بھگت مسلمانوں کو پکڑ کر پٹائی کرتے ہوئے انہیں جے شری رام اور جے ہنومان اور اس طرح کے دیگر نعرے لگانے پر مجبور کررہے ہیں ۔
آج ان غنڈہ عناصر کی دہشت گردی کا یہ عالم ہوگیا کہ اگر کوئی مسلم نوجوان یا صرف مسلم حلیہ کا کوئی بھی شخص دکھائی دے اور اگر اس کے ہاتھ میں کوئی تھیلی یا بیگ ہو تو بس ہے ان غنڈہ عناصر کو ظلم کا کھیل شروع کرنے کیلئے بہانہ مل جاتا ہے اور وہ شور مچانے لگتے ہیں کہ دیکھو مسلمان جارہا ہے اور اس کی تھیلی میں گائے کا گوشت ہے ۔ جو پکانے ، کھانے یا فروخت کرنے کے لئے لے جارہا ہے اور پھر کیا بس اس بیچارے کو مارنا پیٹنا شروع کردیا جاتا ہے ، بھلے ہی اس کی تھیلی میں ترکاری یا پھر سادہ سا نمک ہی کیوں نہ ہو ۔ حد تو یہ ہوچکی ہے کہ مسلم مرد و خواتین تو درکنار معصوم بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بناجارہا ہے اور انہیں جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا جارہا ہے اور یہ 2014 سے شدد کے ساتھ ہوتا جارہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کے ساتھ خود مسلم تنظیموں کو اس تشویشناک مسئلے کے حل کیلئے آگے آنا ہوگا ۔