Wednesday, April 23, 2025
Homeٹرینڈنگہریانہ کے مایوس کن نتائج سے پریشان بی جے پی کے لئے...

ہریانہ کے مایوس کن نتائج سے پریشان بی جے پی کے لئے اب جھارکھنڈ کی فکر ستانے لگی

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ ہریانہ اور مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر سب کی نظریں مرکوز تھیں جہاں بی جے پی یہ دعوی کررہی تھی کہ وہ واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے گئی لیکن اس کے دعووں کے خلاف نتائج نے نہ صرف اسے پریشان کردیا ہے بلکہ اب سال کے آخر میں جھارکھنڈ میں ہونے والے انتخابات میں بھی اس کے لئے راہ آسان نہیں رہی ہے ۔

 بی جے پی کےلئے ہریانہ کے نتائج نے جھارکھنڈ کی راہ مشکل کردی ہے۔لوک سبھا کے انتخابات میں شاندارکامیابی کے پانچ مہینہ بعد مہاراشٹر اور ہریانہ میں ہوئے اسمبلی انتخابات نے بی جے پی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبورکر دیا ہے۔ مہاراشٹر انتخاب میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کا ووٹ فیصد توکم ہوا ہی ہے، ہریانہ میں بھی بی جے پی کو گزشتہ کے مقابلے 22 فیصد ووٹوںکا نقصان اٹھانا پڑا۔

جہاں تک نشتوں کی بات ہے تو ہریانہ میں بی جے پی کو 7 نشتوں کا اور مہاراشٹر میں 17 نشتوں کانقصان ہوا ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخاب سے لے کر اسمبلی انتخاب کے درمیان سب سے زیادہ نقصان بی جے پی کو ہریانہ میں اٹھانا پڑا جہاں اس کا ووٹ حصص 22 فیصد تک گرگیا۔ لوک سبھا انتخابات میں پارٹی نے 58 فیصد ووٹ حصص کے ساتھ ریاست کی سبھی 10 لوک سبھا نشتوں پر قبضہ کیا تھا۔

اپریل مئی میں لوک سبھا کے انتخابات ہوئے تھے اور بی جے پی کو ہریانہ اسمبلی انتخابات میں 36.49 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ حالانکہ 2014 کے اسمبلی انتخابات کے اعداد و شمار سے یہ 3 فیصد زیادہ ہے لہٰذا بی جے پی اسے اپنی کامیابی مان رہی ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے نتیجہ آنے کے بعد پارٹی ہیڈ کوارٹر پر گزشتہ اسمبلی انتخاب کے مقابلے میں بڑھے تین فیصد ووٹ کو کامیابی قرار دیا۔

اسی طرح مہاراشٹر کی بات کریں تو وہاں بھی 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے مقابلے میں بی جے پی اور اس کے اتحاد کا ووٹ فیصد کم ہوا ہے۔ 2019 لوک سبھا انتخاب میں این ڈی اے کو 50.8 فیصد ووٹ ملے تھے، لیکن پانچ مہینے بعد ہوئے اسمبلی انتخاب میں یہ اعداد و شمار گھٹ کر 42.1 فیصد پر رک گیا۔

اسمبلی انتخاب 2014 کے مقابلے 2019 کے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کے تقریباً چھ لاکھ ووٹ گھٹ گئے۔ گزشتہ مرتبہ بی جے پی کو ایک کروڑ47 لاکھ ووٹ ملے تھے۔ اس مرتبہ ایک کروڑ 41 لاکھ ووٹ ملے ہیں۔ پچھلی مرتبہ مہاراشٹر میں بی جے پی کو 122 نشتیں ملی تھیں، اس مرتبہ 105 نشتیں ملی ہیں۔ حالانکہ پچھلی بار بی جے پی نے الگ انتخاب لڑا تھا، اس بار شیو سینا سے اتحاد کے سبب پارٹی صرف 164 نشتوں پر میدان میں اتری تھی۔

بی جے پی کے بموجب کم نشتوں پر لڑنے کو نظر میں رکھا جائے تو پارٹی کا اسٹرائیک ریٹ اچھا ہے۔ اس اسمبلی انتخاب میں شیو سینا نے 16.41 فیصد ووٹ حاصل کیا ہے۔ ان حالات کے بعد اب رواں سال کے آخر میں جھار کھنڈ میں ہونے والے انتخابات میں جہاں بی جے پی کےلئے حالات مشکل ترین ہیں وہیں اپوزیشن کےلئے مواقع ہے کہ وہ اپنی موجودگی کا احساس دلائے۔

جھارکھنڈ میں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیںاور بی جے پی نے ہریانہ میں دیے گئے نعرہ 75 پار کی طرز پر 65 پار کا نعرہ بھی دے رکھا ہے لیکن ہریانہ میں جو کچھ بی جے پی کے ساتھ ہوا، یہ دیکھ کر جھارکھنڈ بی جے پی حواس باختہ ہے اور اسے خوف ہے کہ کہیں جھارکھنڈ میں بھی 65 پار کا نعرہ ناکام نہ ہو جائے۔

ہریانہ کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کی کارکردگی امید سے بہت زیادہ خراب رہی اور بی جے پی کو چھپڑ پھاڑ سیٹ دینے والے بیشتر ایگزٹ پول بھی غلط ہی ثابت ہوئے، یہی وجہ ہے کہ جھارکھنڈ بی جے پی اب ڈری سہمی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

دراصل جھارکھنڈ میں بی جے پی اپوزیشن کے کچھ لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرلینے کے بعد کامیابی کا خواب دیکھ رہی ہے لیکن 24 اکتوبر کو ہریانہ و مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج کے علاوہ بہار جیسی ریاست میں ہوئے ضمنی انتخابات کا جو نتیجہ آیا ہے اس نے جھارکھنڈ بی جے پی کے پالیسی سازوں کی نیند اڑا دی ہے۔

ریاستی بی جے پی لیڈروں نے گزشتہ دنوں جو کچھ کہا، اس کے مطابق پارٹی نے ایک پالیسی کے تحت حوصلہ توڑنے کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے ایسے لیڈروں کو توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا جو اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔ بی جے پی کی یہ پالیسی کامیاب رہی اور جھارکھنڈ میں اپوزیشن کے کچھ لیڈران بی جے پی میں شامل بھی ہو گئے۔ اس سال لوک سبھا انتخاب کا جو نتیجہ برآمد ہوا تھا، اس کے بعد پرجوش کمل گروپ دیگر پارٹیوں کے مضبوط قائدین کی بی جے پی میں شمولیت سے خود کو بہت مضبوط تصور کر رہی تھی لیکن اب ماحول بہت بدلا ہوا نظر آ رہا ہے۔

ریاستی کانگریس صدر رامیشور اراوں نے کہا ہے کہ ہریانہ، مہاراشٹر اسمبلی انتخاب اور بہار ضمنی انتخاب کے نتائج نے ایک مرتبہ پھر بی جے پی کے ترقی کے کھوکھلے دعووں کی ہوا نکال دی ہے۔ اب بی جے پی کا بڑبولاپن ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کے بڑے لیڈر مہاراشٹر میں 200 اور ہریانہ میں 75 پارکا دعویٰ کر رہے تھے لیکن دو ریاستوں کے ووٹروں نے بی جے پی کی امیدوں کے مطابق اکثریت نہیں دی۔ دونوں ریاستوں کے انتخاب میں مقامی مسائل حاوی رہے۔ جھارکھنڈ میں بھی 65 پار کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوگا۔

جھارکھنڈ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی یوگیش کسلے کے بموجب ہریانہ کا انتخابی نتیجہ بی جے پی کو سبق دینے والا ہے۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ بی جے پی کی پالیسی جھارکھنڈ میں پھر سے بڑی جیت درج کرنے کی ہے، اس لیے ہریانہ سے سبق لیتے ہوئے ایسے لوگوں کو ٹکٹ دینے سے پرہیز کرے گی جو جیتنے لائق نہیں ہوگا۔ اس نتیجہ سے واضح ہوگیا ہےکہ دیگر پارٹیوں سے آنے والے اراکین اسمبلی کو بھی بی جے پی ٹکٹ دینے میں کافی غور و خوض کرے گی۔

حالانکہ بی جے پی قائدین اس سلسلے میں اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ پارٹی ترجمان مشفقہ حسن کہتی ہیں کہ ہریانہ میں پارٹی اپنی منزل تک نہیں پہنچی، یہ تجزیہ کا موضوع ہے اور پارٹی قیادت اس کا تجزیہ ضرورکرے گی لیکن جھارکھنڈ کے حالات ہریانہ سے پوری طرح الگ ہیں۔

 بی جے پی کے ایک لیڈر نے کہا ہے کہ انتخاب کی تیاریوں کے ضمن میں بی جے پی زمینی سطح پر اپنی تیاریوں کو انجام دے رہی ہے۔ پارٹی ووٹنگ سنٹر کی سطح پر کام کر رہی ہے اور چیف منسٹر رگھوور داس انتخاب کی تاریخ کے اعلان سے پہلے ہی زبردست تشہیری مہم میں مصروف ہیں۔ رگھوور کا رتھ اب تک ریاست کے نصف اسمبلی حلقوں کا دورہ کر چکا ہے۔

بہر حال، بی جے پی خیمہ اپوزیشن پارٹیوں کے سرکردہ لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرا کر انتخاب سے پہلے ہی خود کو مضبوط حالت میں سمجھ کر پرجوش تھا لیکن ہریانہ انتخاب کے نتیجوں نے بی جے پی کو ایک بار پھر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔