Tuesday, June 10, 2025
Homeخصوصی رپورٹہمارے گھروں میں قرآن مجید کی تلاوت کم بھجنوں کا ورد بڑھ...

ہمارے گھروں میں قرآن مجید کی تلاوت کم بھجنوں کا ورد بڑھ گیا ہے

- Advertisement -
- Advertisement -

اطہر معین
ہماری نئی نسل تو کجا اگر ہم آج کے والدین سے امہات المومنین یا عشرہ مبشرہ کے نام پوچھیں تو وہ بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ نبی آخری الزماں صلی اللہ علیہ سلم نے ’سید الشہد‘ یا ’سیف‘ اللہ کا لقب کس عظیم المرتبت صحابی کو عطا کیا تھا؟ اس کے برخلاف ہمیں ٹیلی ویژن چیانلس پر پیش کئے جانے والے درجنوں سیرئیلس میں ان میں کام کرنے والے بے شمار اداکاروں کے نام ہم زبانی گناسکتے ہیں۔ جب میں نے ہمارے ٹیلی ویژن چیانلس پر دکھائے جانے والے چیانلس کے بارے میں جانکاری حاصل کی تو مجھے زائد از 30 سیرئیلس کے نام گنائے گئے۔ آج ہم کسی بھی گرہست خاتون کو یہ پوچھیں کہ کونسے ٹیلی ویژن چیانل پر کون کونسے سیرئیلس آتے ہیں اور پچھلے ایپی سوڈ میں کونسے سیریل کے کس کردار کے ساتھ کیا پیش آیا تو وہ بڑی ہی تفصیل سے ساری کہانی دہرا دے گی۔ ان دنوں ٹیلی ویژن چیانلس پرجو پروگرامس پیش کئے جانے لگے ہیں ان کے بارے میں معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان سیرئیلس میں جو ڈائیلاگس اور مناظر پیش کئے جارہے ہیں 70 کے دہے میں سنسر بورڈ ان کی اجازت بالغوں کے لئے بنائی جانے والی فلموں کے لئے بھی نہیں دیا کرتا تھا۔ ان کالموں میں گذشتہ دنوں ٹیلی ویژن بینی کی لعنت کا سرسری تذکرہ کیا گیا تھا جبکہ اس کے مضر اثرات کے بارے میں لکھنے بیٹھیں تو صفحات بھی کم پڑجائیں۔ یہ سیرئیلس ایک مخصوص مشن کے تحت اور مخصوص نشانوں کے ساتھ تیار کئے جارہے ہیں جن کا مقصد سماج کو ایک مخصوص راہ پر ڈالنا ہے۔ سیرئیلس کے ناموں اور ان کی کہانیوں سے ایک باشعور شخض اندازہ کرسکتا ہے کہ سماج میں کس قسم کے افکار و خیالات پھیلائے جارہے ہیں۔ گلال‘ چاند چھپا بادل میں‘ سسرال گیندا پھول‘ ساتھیا‘ یہہ رشتہ کیا چاہتا ہے؟‘ تیرے لئے‘ من کی آواز پرتگیہ‘ کالی‘ مریادا‘ بالیکا ودھو‘ رشتوں سے بڑھی پریتھا‘ لاگی تجھ سے لگن‘ اترن‘ نہ آنا اس دیش لاڈو‘ جھانسی کی رانی‘ یہاں میں گھر گھر کھیلی‘ پوتر رشتہ‘ رام ملائے جوڑی‘ سنجوگ سے بنی سنجنی‘ میرا نام کرے گا روشن‘ یہ عشق ہے‘ پیار کی ایک کہانی‘ ملے جب ہم تم‘ گیت‘ رنگ بدلتی اوڑھنی‘ بات ہماری پکی ہے‘ ساس بنا سسرال‘ تیرا مجھ سے ہے پہلے کا ناطہ کوئی وغیرہ وغیرہ۔ ان دنوں کلرس ٹیلی ویژن چیانل پر پیش کئے جانے والے پروگرام ’ بگ باس‘ اور این ڈی ٹی وی ایماجن پر راکھی ساونت کا پروگرام ’ راکھی کا انصاف‘ کے بہت چرچے ہیں۔ بگ باس میں تو بدنام زمانہ شخصیتوں کو پیش کیا گیا ہے جنہیں ایسی ایسی حرکتیں اور ڈاےئلاگ ادا کرتے ہوئے دکھایا جارہا ہے جو ایک شریف النفس آدمی تنہائی میں بھی نہیں کرپاتا۔ اب تو یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ ٹیلی ویژن چیانلس اپنا ٹی آر پی بڑھانے جو ‘ان کی منفعت کی کنجی ہے‘ چھوٹے اسکرین پر دولھے اور دلہن کی تلاش کے بھی پروگرامس بنا ڈالے۔ بگ باس جو معمولی معمولی خلاف ورزیوں اور ڈسپلن شکنی پر تادیبی کارروائی کرتے ہیں وہ ہیجان انگیز مناظر اور گالی گلوج کو پیش کرنے کو معیوب نہیں سمجھتے۔ ’ بگ باس‘ کے ذریعہ پھیلائی جانے والی عریانیت و شہوانیت کے خلاف جب سماج کے ایک طبقہ کی جانب سے آواز اٹھائی جانے لگی تو وزارت اطلاعات و نشریات نے تحدیدات عائد کرتے ہوئے ’بگ باس‘ اور ’راکھی کا انصاف‘ کو رات 11:00 بجے تا 5:00 بجے صبح کے درمیان ہی پیش کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ نا بالغ ناظرین اس پروگرام سے متاثر نہ ہونے پائے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے احکام کے خلاف ممبئی کی عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے پروگرام کے ذمہ داروں نے فوری اثر کے ساتھ حکم التواء بھی حاصل کرلیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری ملت کے ذمہ دار ٹیلی ویژن کے مضر اثرات سے واقف ہیں اور ہم میں کئی نامور قانون داں بھی ہیں مگر کسی نے بھی ٹیلی ویژن کے ذریعہ پھیلائی جانے والی بے حیائی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ایسے واہیات سیرئیلس پر امتناع عائد کرنے کے لئے قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہئے تھی۔ شکر ہے کہ ہندستانی دستور اور قوانین میں اب بھی یہ گنجائش ہے کہ ہندستانی معاشرہ کو بگاڑ کا سبب بننے والے پروگراموں پر روک لگائی جاسکتی ہے چونکہ ہندستانی تہذیب و تمدن میں اس طرح کی بے حیائی اور گمراہی کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ہماری طرف سے ایسی کوئی پہل کی جائے تو ہمیں دیگر ابنائے وطن کی تائید و حمایت بھی حاصل ہوجائے گی چونکہ ہندو معاشرہ بھی ایسی بے حیائی کی اجازت نہیں دیتا۔ جہاں ہم اپنی ملی ذمہ داریوں کو فراموش کرگئے ہیں وہیں ہم اپنی انفرادی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنے لگے ہیں۔ صدر خاندان بھی یہ جانتا ہے کہ گھر کی بہو بیٹیاں ان واہیات سیرئیلس میں اپنا وقت کھپارہی ہیں مگر ان میں اب اتنی طاقت نہیں رہی کہ وہ گھر میں ایسے سیرےئلیس دیکھنے پر پابندی عائد کرے بلکہ خود وہ ٹیلی ویژن سے چپکے بیٹھے رہتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق ہماری خواتین تقریباً 6-8 گھنٹے ان واہیات سیرئیلس کے مشاہدہ میں گذارتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ گھر گھر ناچ گانا ہوجائے گا جو آج سچ ثابت ہورہی ہے۔ ہمارے گھرانوں میں اب قرآن مجید کی تلاوت کم ہوتی ہے بلکہ کئی گھرانے ایسے ہوں گے جہاں صرف مخصوص مواقع پر قرآن مجید کو کھولاجاتا ہے مگر ان گھرانوں میں ٹیلی ویژن کی دین کے باعث روزانہ بھجن بجنے لگے ہیں۔ کسی گھر سے قرآن مجید کی تلاوت کی آواز آجائے تو آج اس گھرانہ کو دیندار گھرانہ سمجھا جائے گا‘ اس کے برخلاف مسلم بستیوں سے گذرجائیں تو تقریباً ہر گھر سے ٹیلی ویژن چیانل پر کوئی نہ کوئی سیریل چلتا ہوا محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان سیرئیلس کے بنانے والوں میں ایک مخصوص پروڈکشن ہاؤز ہے جو ان سیرئیلس کے ذریعہ ہندو مذہبی اقدار کو فروغ دے رہا ہے۔ ان پروگرامس میں تمام ہندو تہواروں کو پروگرام کے حصہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان سیرئیلس کا مشاہدہ کرنے والی ہماری کئی خواتین کو ان میں پیش کئے جانے والے بھجن اور اشلوک زبانی یاد ہوگئے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ باپ جسے جنت کا دروازہ قرار دیا گیا اور ماں جس کے قدموں کے نیچے جنت بتائی گئی ان قابل احترام ہستیوں کی موجودگی میں ہماری جوان بیٹیاں خلوت کے مناظر بڑی بے حیائی سے دیکھتی ہیں‘ نہ ہی باپ کو شرم آتی ہے اور نہ ہی ماں کو حیا۔