حیدرآباد: صبح صبح جب آنکھ ملتے ہوئے ہم ٹوئٹر کے پیغامات پر سر سری نظر ڈال رہے تھے تو ہماری نظر تلنگانہ کے ٹی آر ایس میڈیا کنوینر وائی ستیش ریڈی کی ٹوئٹ پر پڑی جس کے بعد ہم ایک بے ساختہ چھلانگ لگا کر اپنے بستر سے الگ ہوگئے ۔یہ ٹوئٹ ہمارے لئے 440 والا بجلی کا جھاک ثابت ہوا۔
ہماری فکر کسی نامعلوم شخص یا پھر غیر معروف ادارے کے لئے نہیں تھی بلکہ 56 انچ چوڑے سینے والے ہمارے ہر دل عزیز وزیراعظم نریندر مودی کے لئے ہے۔ویسے تو ہر کوئی مودی کی فکر کرتا ہی ہے جس کا واضح ثبوت ستیش ریڈی کا ٹوئٹ بھی جس میں انہوں نے حالانکہ ریاست میں مخالف پارٹی کے سیاسی قائد ہونے کے باوجود مودی کی فکر کا تذکرہ کیا ہے ۔
سارے ہندوستانیوں کو اب وزیراعظم مودی کی فکر ستانے لگی کیونکہ مودی دنیا کے وہ واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے سب سے پہلے کورونا کی وبا کو ختم کرنے کے لئے اختراعی طریقہ اختیار کیا تھا ۔ساری دنیا اور خاص کر امریکہ ، برطانیہ ،فرانس ،جرمنی کے علاوہ خلیجی ممالک میں سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات کے ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سب ہی کورونا وائرس کے دنیا پر حملے کےبعد اس سے مقابلہ کرنے کےلئے روایتی اور صدیوں قدیم طبی طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے لیبائٹری کی چار دیواروں میں نہ صرف خود کو قید کرتے ہوئے کورونا کی دوا تیار کرنے میں مصروف تھے بلکہ وہ اپنا قیمتی وقت برباد کررے تھے ، تودوسری جانب ہندوستان کے بہادر ، بے باک، نڈر وزیر اعظم مودی نے اپنی عوام کو شام کے اوقات بے خوف ہوکر گھروں کی چھتوں ، میدانوں اور سڑکوں پر نکل کر کورونا کو بھاگنے کےلئے تالی اورگھنٹی بجانے کا نیا ہتھیار دیا۔
ہندوستانی عوا م کے ہاتھوں میں گھنٹی اور موم بتی تھماکر انہیں بے خوف بنانے والے وزیر اعظم سبھی کے ہر دلعزیز سیاسی لیڈر ہیں تو یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کی صحت کی فکر کروڑہا ہندوستانیوں کو نہ ہو۔ہندوستانی عوام کوکورونا کے خلاف نڈر بنانے کےلئے ان کے ہاتھوں میں گھنٹہ تھمادینے والے (ہمارا مطلب تھالی اور تالی ہے) وزیر اعظم تو عوام سے بھی زیادہ نڈر اور کورونا کے خلاف سپاہ سالار کا کردار ادا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ،یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے کورونا کے اس بحران میں بھی وبا سے ہندوستان کو محفوظ رکھنے سے زیادہ اہم کام رام مندر کی سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی ۔کیونکہ مودی وہ راز جانتے ہیں جو عوام نہیں جانتے کیونکہ عوام کے سامنے کورونا کا بحران ،ملازمتوں کے ختم ہوجانے کا طوفان ،معیشت کی تباہی ،صحت کے شعبے میں کمیاں ،گورنمنٹ دواخانوں کی زبوں حالی ،روزآنہ اپنے عزیزوں کو موت میں منہ میں سوتا ہوا د یکھنے کے مناظر ہیں جبکہ وزیراعظم مودی جانتے ہیں کہ بحران سے زیادہ رام مندر کی سنگ بنیاد کی تقریب کتنی اہم ہے اور اس میں پوشیدہ راز کو ان کی تیسری آنکھ دیکھ چکی ہے ۔
رام مندر کی سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت میں وہ اتنے محو تھے کہ انہیں اپنی صحت اور زندگی کی پرواہ بھی نہیں تھی کہ انہوں نے اس تقریب میں خود کو اوپر والے کے حوالے کرتے ہوئے صرف فیس ماسک کا ہی استعمال کیا جبکہ سماجی فاصلے کو شاید وہ بھگوان کی محبت میں بھول گئے تھے۔
اب یہ خبر جب منظر عام پر آئی ہے کہ اس تقریب میں جو صدارت کی کرسی پر موجود تھے ان سے کورونا وائرس نے ملاقات کرلی ہے ۔ کورونا وائرس ان دنوں رام مندر بھومی پوچا تقریب میں شریک رام مندر ٹرسٹ کے صدر نیتا گوپال داس کا مہمان ہے ۔
ویسے ہم سبھی جانتے ہیں کہ کورونا وائرس کا فی خوددار قسم کا مہمان ہے وہ کسی بھی میزبان کے ساتھ زیادہ دن نہیں رہتا اور چند دن میں ہی رخصت ہوجاتا ہے لیکن تنہائی کے دوران اگر کوئی اپنی محبت اور شاندار میزبانی سے اس کا دل جیت لیتا ہے اور اسے مزید کچھ دنوں کےلئے رکنے کی درخواست کرتا ہے تو کورونا چونکہ ایک میزبان کے پاس زیادہ دن نہیں رکتا لیکن میزبان کی محبت کا صلہ وہ ضرور دیتا ہے اور انعام و اکرام کے طور پر وہ اس میزبان کو اپنے ساتھ ہی لیکر دوسری دنیا کی سیر کےلئے آگے بڑھ جاتا ہے ۔میزبان جب کورونا وائرس کے ساتھ دوسری دنیا کی سیر پر جاتا ہے تو وہ اس سیر میں اتنا مگن ہوجاتا ہے کہ اسے اس دنیا سےپھر رشتہ بنائے رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اب جبکہ رام مندر بھومی پوچا میں شریک رام مندر ٹرسٹ کے صدر نیتا گوپال داس کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں اور اس تقریب میں ہر دلعزیز مودی بھی نہ صرف شریک تھے بلکہ وہ بھگوان کی محبت میں اتنے ڈوب چکے تھے کہ انہیں اس تقریب میں بن بلائے مہمان کورونا یاد نہیں رہا اور وہ معاشرتی فاصلہ برقرار رکھنا بھول گئے جس کی وجہ سے عوام میں ان کی صحت کےلئے ایک تشویش پائی جاتی ہے ۔
وزیراعظم مودی چونکہ ساری دنیا میں کے مقبول ترین قائدین میں شمار کئے جاتے ہیں اور جو کوئی انہیں ایک بار دیکھتا ہے وہ ان کا دیوانہ ہوجاتا ہے اور بار بار ان سے ملاقات کو اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہے جبکہ بیرونی ممالک میں تو ان کی مقبولیت اور زیادہ بتائی جاتی ہے لہذا کہیں چین سے آنے والا مہمان کورونا ہمارے وزیر اعظم کا دیوانہ نہ ہوجائے اور بار بار ان سے ملاقات کی ضد نہ کربیٹھے یہ ہی وہ وجہ سے جو ہمیں پریشان کررہی ہے ،کیونکہ ہمارے وزیر اعظم کو روزآنہ کئی کئی گھنٹے بنا رکے رام مندر کی تعمیر جیسے کئی اہم کام انجام دینے ہوتے ہیں تو وہ کس طرح اس چینی مہمان کورونا کی میزبانی کرسکیں گے؟
از : حذیفہ ارقم