حیدرآباد – ہمارا ملک ہندوستان اس وقت دو اہم مسائل سے پریشان ہے اور دونوں ہی مسائل کی اصل ذمہ دار کہیں نہ کہیں مودی حکومت ہے کیونکہ ایک جانب اس کی غلط پالیسوں کی وجہ سے ملک کی معیشت سست روی کا شکار ہے تو دوسری جانب غلط فیصلے کی وجہ سے کشمیر میں زندگی مقید ہوگئی ہے۔ حالات متقاضی ہیں کہ ہندوستان کی معیشت کو مستحکم کیا جائے اورجو لاکھوں ملازمتیں ختم ہونے کے خدشات ہے اس خدشہ کو ختم کیا جائے لیکن مودی حکومت کو تو اپنے سیاسی مفادات کے آگے عوام کا کوئی مسئلہ اور درد دیکھائی نہیں دیتا یہ ہی وجہ ہے کہ اسے نہ ہی ہندوستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کی فکر ہے اور نہیں ہی کشمیر کے عوام جو تقریباً ایک مہینے سے اپنے گھروں میں قید کی زندگی گزاررہے ہیں انہیں غذا،ادوایات اور روزی روٹی پہنچانے کی کوئی کوشش کی جارہی ہے، اس کے برعکس وہ اپنے فیصلے کو تاریخی فیصلہ ثابت کرنے اور اپنی پیٹھ تھپتپھانے میں مصروف ہے۔
ہندوستانی معیشت میں سست روی اور روزگار کے کئی ملین مواقع ختم ہو جانے پر ریاستی اداروں اور بہت سے ماہرین کے بعد اب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ہندوستان کے لیے اپنے سالانہ مشورے میں اقتصادی سست روی اور آمدنی میں کمی کے بعد گہرے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستانی وزارت خزانہ سے پوچھا ہے کہ قومی بجٹ میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں نیز اشیاءاور خدمات سے متعلق ٹیکس (جی ایس ٹی) کی مد میں مالی وسائل کے حصول کا جو ہدف مقررکیا گیا ہے، آیا وہ واقعی حاصل کیا جا سکتا ہے؟
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سال یکم اپریل سے 15 اگست تک کے درمیان براہ راست ٹیکس ریونیو میں زبردست کمی ہوئی ہے۔ یہ شرح کم ہو کر 4.7 فیصد ہو گئی حالانکہ اس سال کی دوسری سہ ماہی میں یہ شرح 9.6 فیصد تھی اور مطلوبہ شرح تو 17.3 فیصد ہے۔اس سے قبل منصوبہ بندی کے حکومتی ادارے نیتی آیوگ کے نائب سربراہ راجیوکمار نے بھی اقتصادی سست روی پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا ہے کہ ہندوستان کی اقتصادی صورت حال غیر معمولی طور پر تشویش ناک ہے۔ گزشتہ 70 برسوں میں ملکی مالیاتی شعبے کی ایسی حالت کبھی نہیں رہی۔ خانگی شعبوں میں اس وقت کوئی کسی پر اعتماد نہیںکر رہا اور نہ ہی کوئی قرضے دینے کو تیار ہے۔
راجیو کمار کا خیال ہے، خانگی شعبوں میں پائے جانے والے خوف کو ختم کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے بھی ہندوستانی معیشت میں سست روی کو انتہائی حد تک باعث تشویش قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ میرا ماننا ہے کہ معیشت میں سست روی یقینی طور پر بہت ہی تشویش ناک ہے۔ آپ ہر طرف دیکھ سکتے ہیں کہ کمپنیاں فکر مند ہیں۔ نئی اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن بین الاقوامی منڈیوں سے قرض لینے سے کوئی سدھار تو ممکن نہیںلیکن صرف وقتی بہتری ہی آ سکتی ہے۔
دوسری جانب کشمیر کی بگڑتی صورتحال سے بھی ہندوستان کی معیشت پر برے اثرات پڑے ہیں ۔ مودی حکومت کے پالیسی تھنک ٹینک نیشنل انسٹی ٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا کے وائس چیئرمین راجیو کمار نے تسلیم کیا ہے کہ ہندوستان کو اس وقت جس اقتصادی سست روی کا سامنا ہے اس کی مثال پچھلے 70 سال میں نہیں ملتی۔ پورا مالیاتی شعبہ خراب صورتحال سے دو چار ہے اور کوئی کسی پر اعتماد نہیں کر رہا۔دوسری جانب امریکہ کے آزاد مالیاتی ادارے جیفریز کے ایکویٹی اسٹریٹجیز شعبے کے گلوبل ہیڈ اور معروف تجزیہ نگارکرس ووڈ نے بھی موجودہ سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر ہندوستان کی اقتصادی صورتحال مزید خراب ہونے کی پیش قیاسی کی ہے۔
کشمیر میں انسانی المیے اور تحدیدات پر غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔ سیکولر اور جمہوریت پسند عوام بی جے پی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور کھل کر کہہ رہے ہیں کہ مودی بطور ڈیوائیڈر ان چیف ملک کو تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ مودی حکومت نے کشمیر کے دروازے اپوزیشن لیڈروں کیلئے بھی بند کررکھے ہیں۔ راہول گاندھی کی قیادت میں اپوزیشن وفد کو سرینگر داخل ہونے سے روک دیا۔ یہ سب پر عیاں ہے کہ اپوزیشن رہنماﺅں کیساتھ سرینگر ایر پورٹ پر کیا ہوا؟ راہول گاندھی اور دیگر اپوزیشن رہنماﺅں کی پولیس اور انتظامیہ سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ راہول گاندھی نے سری نگر ایرپورٹ سے واپس بھیجنے جانے کے بعد کہا کہ ہمارے ساتھ آئے ہوئے میڈیا نمائندوں سے بدتمیزی کی گئی ہے جس سے یہ واضح ہو گیا کہ جموں وکشمیر میں صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔
دہلی ایرپورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفد وادی کے لوگوں کے تاثرات جاننے کا خواہش مند تھا لیکن ہمیں ایر پورٹ سے آگے جانے نہیں دیا گیا۔ کانگریس نے مودی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پرکہا مودی حکومت کیا چھپانا چاہ رہی ہے؟ اگر کشمیر میں صورتحال معمول کے مطابق ہے، جیسا کہ حکومت کہ رہی ہے تو پھر راہول کی قیادت میں وفد کو سری نگر ایرپورٹ سے واپس کیوں بھیج دیا گیا؟کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد نے واضح الفاظ میںکہا سری نگر میں صورتحال خوفناک ہے، پرواز میں موجود مسافروں سے ہم نے تازہ کہانیاں سنیں جس سے پتھر کے بھی آنسو نکل آئیں۔
تمام جماعتیں اور رہنما ذمہ دار ہیں، ہم وہاں قانون توڑنے کیلئے نہیں بلکہ کشمیر کی تشویشناک صورتحال کا جائزہ لینے گئے تھے، یہ پچھلے کئی دنوں سے بند ہے، اس علاقے سے کوئی خبر نہیں آرہی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہاں سب کچھ معمول کے مطابق ہے تو قومی رہنماﺅں کو وہاں جانے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما سیتارام یچوری کا بھی اس معاملے بیان کشمیر کے حالات کی ترجمانی کرتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ وفدکو کشمیر میں امن عامہ کی صورتحال خراب کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا ہمیں سری نگر ایرپورٹ پر حراست میں لیا گیا تھا حالانکہ ہمیں جانے کی اجازت دینا چاہیے تھی کیونکہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم الزامات کا جواب دیں گے۔
رپورٹ کے مطابق وفد نے بڈگام کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے نام مشترکہ خط میں لکھا تھاکہ ہم ذمہ دار سیاسی رہنما، منتخب نمائندے ہیں اور ہمارے ارادے مکمل طور پر پرامن اور انسانی بنیاد پر ہیں۔ ہم جموں اورکشمیر اور لداخ کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور حالات کی معمول کی جانب واپسی کے عمل کو تیز کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نئی دہلی سے راہول گاندھی کے ہمراہ غلام نبی آزاد سمیت 11 اتحادی رہنما مقبوضہ کشمیر پہنچے تھے۔
اس سے قبل کشمیر کے گورنر ستیہ پال یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ کشمیر کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ راہول گاندھی جب چاہیں دورہ کر سکتے ہیں انہیں ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیا جائیگا لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ مودی حکومت کے دعوے کچھ اور اور حقائق کچھ اورہیں ۔ اگر دعووں میں صداقت ہوتی تو پھر غلام نبی آزاد کو 2 مرتبہ سری نگر اور جموں کے ایرپورٹ سے واپس نئی دہلی کیوں بھیجا گیا۔اس کے علاوہ سیتا رام یچوری کو بھی ایک مرتبہ سری نگر کے ایرپورٹ سے واپس بھیجا گیا تھا۔خود ہمارے اخبارات رپورٹس ہیں کہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما گھروں میں نظر بند ہیں انہیں کہیں جانے کی اجازت نہیں کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا۔
کشمیر مکمل طور پر بند ہے ۔ اسکول ، بینک ،سرکاری دفاتر،تجارتی مراکز بند ہیں اور سڑکوں سے ذرائع عمل و نقل غائب ہے۔ مودی حکومت کے حالیہ اقدامات اور ریاست کوخصوصی موقف عطا کرنیوالی آرٹیکل 370 ختم کرنے سے معمول کی زندگی قید ہوگئی ہے ، ہر طرح کی انٹرنیٹ اور موبائل فون خدمات بدستور منقطع ہیں۔سخت ترین کرفیو نافذ اور جگہ جگہ خاردار تاریں بچھی ہیں کشمیریوں کو گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیا جا رہا۔ کیا میڈیا کایہ اعتراف اقوام عالم ، قانون نافذ کرنیوالے اور انسانی حقوق کے اداروں کو نظر نہیں آتا؟ کیا بھکتوں کو ہندوستان کی تباہ ہوتی معیشت دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔