Wednesday, May 14, 2025
Homeٹرینڈنگہندوستان معلق پارلیمنٹ کی سمت گامزن ؟

ہندوستان معلق پارلیمنٹ کی سمت گامزن ؟

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات کے چوتھے مرحلے کی  رائے دہی مکمل ہوچکی ہے اور اس دوران نو ریاستوں کی 71 نشستوں پر رائے دہی ہوگی  اور ان میں اکثریت شمالی ہندوستان کی وہ ہندی پٹی ہے جہاں برسراقتدار بی جے پی کو 45 نشستوں کا دفاع کرنا ہے ۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات اپنی نوعیت کی منفرد انتخابات ثابت ہورہے ہیں کیونکہ چوتھے مرحلے کی رائے دہی کے باوجود رائے دہندگان کا مزاج ،رجحان اور طبیعت کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ہندوستان ایک معلق پارلیمنٹ کی سمت گامزن ہے۔

 چوتھے مرحلے کی رائے دہی میں ویسے تو کئی ا ہم نشستوں اور سیاسی قائدین کے درمیان مسابقتی مقابلہ دیکھا جارہا ہے اور ہندوستان کے کروڑوں رائے دہندگان کی نگاہیں ان پر مرکوز ہو چکی ہیں ۔ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور راہول گاندھی پر ہندوستان کی نظریں مرکوز ہو چکی ہیں اس کے علاوہ بیگوسرائے جہاں نوجوانوں کی نئی آواز بن چکے کنہیا کمار کا مقابلہ بی جے پی کے متنازعہ بیانات کے لئے مشہور گری راج سنگھ کا مقابلہ ہو رہا ہے۔

چوتھے مرحلے کی رائے دہی کے بعد بی جے پی قائدین کو کم ازکم اس بات کا اندازہ تو ہو چکا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں مودی لہر اور وزیراعظم کے امیدوار بنتے ہوئے نریندرمودی نے جن بڑے وعدوں کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگے تھے ان میں کئی  اہم وعدے پورے نہ ہوسکے اور اب وعدہ خلافی کے بعد شمالی ہندوستان کی ہندی پٹی کی ریاستوں میں نا ہی عوام میں بی جے پی کےلئے   وہ جوش وخروش ہے اور نا ہی مودی لہر کا کوئی وجود ہے۔  بی جے پی کی حلیف  جماعتوں اور نریندر مودی کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوچکا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی پر کسی بھی زاویے سے وہ عوام سے ووٹ مانگنے کے مستحق نہیں ہیں لہذا مودی اور ان کے ہمنوا اپوزیشن پر تنقید کرنے کے علاوہ انہیں پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا ان پر الزام لگاتے ہوئے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اپنی کرسی کی بقاء کے لئے مودی اتنی نچلی سطح کی سیاست کررہے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کے سابق وزرائے اعظم کی روایت کو بھی توڑتے ہوئے شہید فوجیوں کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کیا ہے ۔ نریندر مودی کے پاس اپنے وعدہ خلافی اور ملک کو تباہ کرنے کے بعد ووٹ مانگنے کا کوئی موضوع ہی نہیں بچا ہے لہذا وہ پلوامہ حملے میں شہید ہونے والے سپاہیوں کے نام پر سیاسی روٹیاں سیکھ رہے ہیں۔

پلوامہ واقعے کو انتخابی موضوع بناتے ہوئے مودی اکثر اپنی عوامی ریلیوں اور جلسوں میں اپوزیشن پر تنقید کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے بالاکوٹ پر ہوئے فضائی حملے کے بعد کانگریس کو تکلیف ہوئی ہے کیونکہ کانگریس کا ووٹ بینک پاکستان میں ہے۔ اس سے نچلی سطح کی سیاست کیا ہوسکتی ہے کہ مودی کی جانب سے شہید نوجوانوں کے نام پر بی جے پی کو ووٹ دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور خاص کر مودی پہلی مرتبہ حق رائے دہی سے استفادہ کرنے والے نوجوانوں کو راست طور پر مخاطب کرتے ہوئے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ بی جے پی کو ووٹ دیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں دونوں پڑوسی ممالک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ نہیں ہوئی ہے لیکن ماضی میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا ہے جہاں سابق وزراء اعظم نے ہند ۔پاک جنگ کو انتخابی مہم بناتے ہوئے شہید فوجیوں کے نام پر ووٹ مانگے ہوں۔

چھ مہینے قبل تک بی جے پی کے لیے کوئی سخت ترین حریف یا اپوزیشن نہیں تھا نہ کسی ریاستی سطح پر اسے اپوزیشن کا سخت ترین سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور نہ ہی قومی سطح پر کانگریس اتنی قوی تھی کہ وہ سخت ترین حریف کا رول ادا کرتی ،لیکن حالیہ اسمبلی انتخابات جس میں کانگریس نے مدھیہ پردیش ،چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ہندی پٹی سے نہ صرف بی جے پی کو بے داخل کیا بلکہ کانگریس کے قومی صدر راہول گاندھی نے بی جے پی کے ساتھ وزیراعظم نریندرمودی کو رافیل معاملے میں بدعنوانیوں جی ایس ٹی کے نام پر ہندوستان میں تجارت کو تباہ کرنے اور کروڑوں افراد کو بے روزگار کرنے اور اس طرح کے اہم مسائل کو اٹھاتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس کی وجہ سے کانگریس بحیثیت اپوزیشن اپنی طاقت میں اضافہ کرچکی ہے۔

بی جے پی کے لئے حالات بد سے بدترین ریاستی سطح پر اس وقت ہونے لگے جب وزیراعظم نریندر مودی اور آندھراپردیش کے چیف منسٹر چندرابابونائیڈو کے درمیان دوستی ختم ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے چندرابابونائیڈو نے بی جے پی اور مودی کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ریاست آندھرا پردیش سے ناانصافی کرنے کا الزام بھی عاید کرنا شروع کیا ،اسی دوران چندرابابونائیڈو اور کانگریس کے قومی صدر راہول گاندھی کے درمیان بڑھنے والی دوستی نے بھی ہندوستان میں سیاست کا ایک نیا منظر نامہ پیش کرنا شروع کیا ۔ ریاستی سطح پر مضبوط اور آئندہ انتخابات میں بھی اہم رول ادا کرنے والی سیاسی جماعتوں سے کانگریس کی قربت نے بی جے پی کے لئے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں میں کانگریس نے مقامی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے نریندر مودی اور بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا منصوبہ تیار کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا شروع کیا۔

نریندر مودی کو اقتدار کی کرسی سے بے دخل کرنے کے لیے سب سے اہم کام بی جے پی کو ہندی پٹی کی ریاستوں سے بے دخل کرنا تھا جس کے لیے راہول گاندھی نے کرپشن کا موضوع اٹھاتے ہوئے مسلسل مودی اور بی جے پی کو نشانہ بنایا اور خاص کر ان پر رافیل معاہدے اور انیل امبانی کو فائدہ پہنچانے کے الزام کے ساتھ حکومت کا اس معاملے میں ناکام ہونا ایسے موضوعات تھے جس نے کانگریس کو ہندی پٹی میں اقتدار دلوا دیا ہے ۔ راہول گاندھی کی جانب سے چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کے خلاف کرپشن کو اہم موضوع بنانا سود مند ثابت ہوا اس کے علاوہ راہول گاندھی نے مودی کو گزشتہ انتخابات میں کیے گئے اپنے اس وعدے جس میں مودی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کہاتھا اس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مودی کے اقتدار میں اقلیتوں کے علاوہ ہر وہ شخص نشانہ بنا جس نے مودی کی ناکامی یا مودی  حکومت کے متعلق سوال کیا ہے یہی وجہ ہے کہ آندھراپردیش ،کرناٹک ، دہلی اور مغربی بنگال کے انتخابات کے دوران عوام کو یہ واضح پیغام پہنچا ہے مودی حکومت ہر اس آواز کو دبا دینا چاہتی ہے جو ان کے خلاف اٹھتی ہے یا ان کی کارکردگی پر سوال اٹھاتی ہے۔

2014 کے برعکس اس مرتبہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے لئے حالات مشکل ترین دکھائی دے رہے ہیں گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے ہندی پٹی کی 71 نشستوں میں 45 نشستیں اپنے نام کی تھی جس میں راجستھان کے تمام 13 نشستوں پر صد فیصد کامیابی، اترپردیش کی 13 نشستوں میں 12 نشستوں پر کامیابی ، مدھیہ پردیش کی 6 نشستوں میں 5 فتوحات ، بہار کی 5نشستوں میں 3 نشستوں پر کامیابی ، جھارکھنڈ کی 3 نشستوں پر صد فیصد کامیابی ، مہاراشٹر کی 17 نشستوں میں 8 نشستوں پر کامیابی اور مغربی بنگال کی 8 نشستوں پر ایک کامیابی حاصل کی تھی ۔ بعد ازاں بہار کا سیاسی منظر تبدیل ہوا جہاں 2014 میں جے ڈی یو جو اس وقت ہے بی جے پی کی مخالف تھی لیکن چند دنوں بعد اس نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرلیا ۔ کانگریس اب مہاراشٹرا میں فلمی اداکارہ اورمیلا ماتونڈکار اور پریہ دت سے امیدیں وابستہ کرچکی ہے اور اسے امید ہے کہ وہ دوبارہ ممبئی میں اپنے قدم مضبوط کرتے ہوئے یہاں سے بھی بی جے پی کو بیدخل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔

 بی جے پی کے خلاف ممبئی میں ایک دلچسپ تبدیلی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے کیونکہ 2014 میں مہاراشٹرا میں مودی لہر موجود تھی اور مہاراشٹر نو نرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی اور مودی کی حق میں انتخابی مہم کو تقویت دی تھی لیکن اب وہ خود مودی اور بی جے پی کو شدید نشانہ بنانے کے علاوہ عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ برسر اقتدار افراد کو اپنی حمایت نہ دے ۔ راج ٹھاکرے نے اپنے حالیہ بیانات میں عوام سے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ مودی نے جو 2014 میں وعدے کئے تھے اس میں وہ ناکام ہو چکے ہیں ۔ ٹھاکرے نے مودی پر الزام عاید کرتےہوئےکہاکہ وہ جھوٹ بولنے اور جھوٹے پروپیگنڈہ کرنے میں ماہر ہیں اور گزشتہ پانچ سال سے وہ یہی کر رہے ہیں لہذا عوام کو چاہیے کہ وہ انہیں اس مرتبہ سبق سکھائیں۔ ٹھاکرے سے جب سوال کیا گیا کہ مودی کی مخالفت سے کانگریس کو فائدہ ہوگا تو انہوں نے واضح جواب دیا کہ ان کے بیان سے اگر کانگریس کو فائدہ ہوتا ہے تو ہونے دیجیے کیونکہ مودی اپنے وعدوں میں ناکام ہوچکے ہیں لہذا عوام کو چاہیے کہ وہ انہیں سبق سکھائیں۔

2014کے انتخابات  میں 55 کروڑ ہندوستانیوں نے جو کہ 66.3 فیصد عوام ہوتے ہیں ، انہوں نے حق رائے دہی سے استفادہ کیا تھا جس میں 30 فیصد سے کچھ زیادہ افراد نے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے قیادت  نریندرمودی کررہے تھے ۔جنہوں نے کئی ایک اہم اور بڑے وعدوں کے علاوہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نام پر ہندوستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا جو موضوع اپنایا تھا اس نے سبھی کو متاثر کیا تھا لیکن گزشتہ پانچ سال کے دوران کوئی بھی بڑا وعدہ پورا نہیں ہوا اور معیشت تباہ ہونے کے علاوہ روزگار کے مواقع مکمل تباہ ہوگئے اور اس مرتبہ 18 تا 19 سال کے نوجوان جو پہلی مرتبہ حق رائے دہی سے استفادہ کررہے ہیں ان کی تعداد 1.5 کروڑ ہے جنہوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران حکومت کی کارکردگی اور خاص کر ملازمتوں کی فراہمی کا قریب سے جائزہ لیا ہے۔ ان کے ووٹ بھی اہمیت کے حامل ہوں گے جنہوں نے حق رائے دہی سے استفادہ سے قبل چند برسوں میں اپنے شعور کے مطابق حکومت کی کارکردگی کا قریب سے جائزہ لیا ہے ان تمام حالات میں تجزیہ نگاروں کے زاویے سے اگر نتیجہ اخذ کیا جائے تو اندازہ ہورہا ہے کہ ہندوستان شاید ایک معلق حکومت کی سمت گامزن ہے۔