Monday, June 9, 2025
Homeٹرینڈنگہندوستان کو ایک اور اودھ پنچ کی ضرورت

ہندوستان کو ایک اور اودھ پنچ کی ضرورت

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد – ہمارا وطن عزیز ہندوستان اس وقت جن مشکل حالات سے گزرہا ہے اسے دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہندوستان کو اب ایک نئے ادوھ پنچ کی ضرورت ہے اودھ پنچ کیا ہے اس کا تذکرہ ذیلی سطور میں موجود ہے لیکن اس سے پہلے یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ ان دنوں ہمارے ملک میں بدعنوانی اور حکومت کی نااہلی کو منظرعام پر پیش کرنا جیسے ایک جرم بن چکا ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں اترپردیش حکومت نے جس طرح پاون جیسوال کو ہراساں کرنے کے علاوہ ان کے خلاف ایف آئی آربھی درج کردیا اس نے ثابت کردیا ہیکہ بی جے پی اور اس کی حلیف زعفرانی جماعتوں کی حکومتوں کے خلاف اس کی نااہلی کو منظرعام پر لانا ایک جرم بن چکا ہے۔

اترپردیش حکومت کی جانب سے پاون جیسوال کے خلاف جو کارروائی کی گئی ہے وہ یقینا انصاف کے مغائر ہے کیونکہ جیسوال نے مرزا پور ضلع کے اسکول میں جو روٹی، نمک اورکھانا فراہم کیا جاتا تھا اس کا پردہ فاش کیا۔ پاون جیسوال کے خلاف حکومت نے جو کارروائی کی ہے اس نے اودھ پنچ کے دنوں کی یاد تازہ کردی ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہیکہ اودھ پنچ کی کارکردگی کیا تھی کیونکہ یہ وہ دور تھا جب اودھ کی پٹی میں راجاؤں کی حکومت تھی لیکن ان سے حکومت چھیننے کے بعد برطانوی سامراجیت نے یہاں اپنی مطلق العنانیت ثابت کردی تھی اور ان کے خلاف جب کوئی ہندوستانی قلمکار ہمت کرتا اور ان کی کوتاہیوں اورغلطیوں کو منظرعام پر لاتا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی کیونکہ برطانوی حکومت کا یہ طریقہ کار تھا کہ جو کوئی بھی اس کے خلاف قلم اٹھاتا اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جاتی اور اس طرح اس کی ہمت اور کمر ایسی توڑی جاتی کہ دوبارہ وہ حکومت کے خلاف کسی قسم کی سچائی کو منظرعام پر لانے کی ہمت نہ کرسکے۔

اودھ پنچ لندن پنچ کی طرز پر اردو کا ایک مزاحیہ ہفت روزہ اخبار تھا جسے منشی سجاد حسین نے 1877ءمیں لکھنوسے جاری کیا تھا۔ یہ اخبار سیاست کو ظرافت کا جامہ پہنا کر پیش کرتا تھا۔ مرزا محمد مرتضی عرف مچھو بیگ عاشق جن کا قلمی نام ستم ظریف تھا، 33 برس تک اس میں مزاحیہ مضامین لکھتے رہے۔ نواب سید محمد آزاد، اکبرالہ آبادی، پنڈت تربھون ناتھ، منشی جوالا پرشاد برق، منشی احمد علی شوق، منشی احمد علی کسمنڈوی جیسے اہل قلم ادارت تحریر سے منسلک رہے۔

 یہ اخبار ہندو مسلم اتحاد اور انڈین نیشنل کانگرس کا مؤید، مغربی تہذیب کا مخالف اور مشرقی اقدارکا علمبردار تھا۔ مزاحیہ کارٹون اور نظمیں کثرت سے شائع ہوتی تھیں۔ اودھ پنچ 36 برس کی مسلسل اشاعت کے بعد منشی سجاد حسین کی زندگی ہی میں سنہ 1912 میں بند ہو گیا۔ اودھ پنچ اس وقت اپنے عہد کی عکاسی کرتا تھا اور خاص کر ادبی انداز میں حکومت کی نااہلیوں اورکوتاہیوں پر طنزکرتا تھا۔

یوگی حکومت میں بھی اترپردیش کے ادیبوں، قلمکاروں اور صحافیوں کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہیکہ پاون جیسوال کے خلاف یوگی حکومت نے برطانوی سامراجیت کا طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ ہندوستان میں جس طرح کے حالات پیدا ہورہے ہیں اس سے اندازہ ہورہا ہیکہ باغی شعراءاور ادیب خاموش کیوں بیٹھے ہیں اور اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے ۔

 جس طرح ماضی میں حکومت کی زیادتیوں کے خلاف اہل قلم نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا اس کا اعادہ کرنے کا وقت پھر ایک مرتبہ آ گیا ہے۔ شعراءاپنی نظموں کے ذریعہ اور ادیب اپنے فن پاروں سے نہ صرف حکومت کی زیادتی کو اجاگر کرتے تھے بلکہ عوام میں شعور بیدارکرتے تھے اور ویسے ہی اب ہندوستان کے موجودہ حالات کو اجاگر کرنے اور عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت ہندوستان کشمیر اور معاشی بحران جیسے دو اہم مسائل سے دوچار ہے لیکن حکومت کے غلط فیصلوں اور نااہل پالیسیوں کے خلاف نہ عوام میں شعور ہے اور نہ ہی اہل قلم ان موضوعات پر ایسی تحریریں پیش کررہے ہیں جس سے ملک کے حالات تبدیل ہوسکیں۔

حکومت کی جانب سے کشمیر کی خودمختاری کو ختم کرنے کیلئے آرٹیکل 370 کو برخاست کئے ہوئے ایک مہینہ گذر چکا ہے لیکن وادی میں زندگی ہنوز مقید ہے جہاں عوام کو روٹی، کپڑا، مکان اور پانی جیسے بنیادی ضروریات کے حصول کیلئے بھی جوئے شیر لانا پڑ رہا ہے جبکہ عزیزواقارب کی خیروعافیت معلوم کرنے کیلئے مواصلاتی نظام مکمل بند ہے۔

حالانکہ ایک جانب اخبارات اور خاص کر اردو اخبارات کی وجہ سے عوام حالات سے واقف ضرور ہورہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں زندگی قیدخانہ میں تبدیل ہوچکی ہے لیکن ملک کے کسی کونے میں کوئی ادیب یا شاعر اس ضمن میں اپنی کوئی تخلیق یا فن پارہ ابھی تک منظرعام پر پیش نہیں کیا ہے۔