اناؤ ۔ اترپردیش کے اناؤ ضلع میں دائیں بازو کے گروپ کے ارکان نے ایک مسجد میں گھس کر 15 سالہ ہندو لڑکی کا ایک ہندو شخص کے ساتھ مبینہ طور پر زبردستی نکاح رکوانے کے بعد ایک عالم اور دو دیگر افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ پولیس نے عالم دین اس شخص کو جس کے ساتھ شادی کی جا رہی تھی اور مسلم خاتون، جس نے نیپالی نژاد لڑکی کی پرورش کی تھی، کو حراست میں لے لیا ہے۔ہندو جاگرن منچ ایچ جے ایم کے ارکان نے مبینہ طور پر مسجد اور مقامی پولیس اسٹیشن کے باہر ہنگامہ کیا۔لڑکی کے والد نے لڑکی کو فروخت کرنے کے الزام میں تینوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
سرکل آفیسر (سٹی) آشوتوش پانڈے نے کہا کہ اس الزام کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لڑکی کا تعلق نیپال کے روکنگڑھی ضلع کے جیوتی پورگاؤں سے ہے۔اس کا خاندان جس میں اس کے والد اور ایک بہن شامل تھی، کانپور کی آزاد نگر کی کچی آبادی میں رہتی تھی۔ باپ نے آٹھ سال پہلے لڑکی کو جو اب 15 سال کی ہے، گنگا گھاٹ کی لال بانو کودی تھی اور اس نے بچی کی پرورش کی۔
اطلاعات کے مطابق فیروز آباد کے 25 سالہ پھولن سنگھ نے لڑکی کو مبینہ طور پر پھنسایا اور راجدھانی روڈ پر واقع مسجد میں نکاح کے لیے لے گیا۔پھولن سنگھ نے مبینہ طور پر مولانا شمیم احمد سے نکاح کرنے کو کہا۔ یہ معلوم کرنے پر کہ یہ دونوں ہندو ہیں، مولوی نے شروع میں انکارکردیا لیکن پھولن مبینہ طور پر اس کے لیے مولانا پر دباؤ ڈالتا رہا۔اس دوران ایچ جے ایم کے درجنوں کارکنان لڑکی کے والد کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے، انہوں نے الزام لگایا کہ مولوی لڑکی کو زبردستی تبدیل مذہب کروانے کے بعد نکاح کررہا ہے۔
گنگا گھاٹ پولیس نے مولانا شمیم، لال بانو اور پھولن سنگھ کو حراست میں لے لیا ہے۔ ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ اس کی شادی ایک ایسے شخص کے ساتھ کی جا رہی ہے جس کو وہ نہیں جانتی تھی اور نہ ہی اس سے کبھی ملی تھی۔لال بانو نے پولیس کو بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور ہندو لڑکی کو اپنی بیٹی کی طرح پالا ہے۔ایچ جے ایم کے علاقائی سکریٹری ویمل تیواری نے کہا کہ فیروز آباد کے ایک نوجوان کے ساتھ مولوی کے ذریعہ ایک نابالغ لڑکی کے زبردستی نکاح کے بارے میں اطلاع ملنے کے بعد ایک ٹیم بھیجی گئی۔
تیواری نے کہا کہ نوجوان کے موبائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے مختلف جگہوں سے رقم بھیجی جا رہی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات پوری طرح واضح تھی کہ نوجوان لڑکی کو نکاح کے بعد دہلی میں فروخت کرنا چاہتا تھا۔دریں اثنا، مولانا شمیم نے کہا کہ ان سے ایک نفیس نے نماز پڑھنے کے لیے رابطہ کیا۔ جب وہ اس مقام پر پہنچا تو ایک نوجوان نے اس سے کہا کہ اس کا نکاح اس کے ساتھ موجود ایک لڑکی سے کرو۔ ان کے مذہب کے بارے میں جاننے پر، اس نے صاف انکارکردیا۔یہ دیکھتے ہوئے، کئی لوگ آئے اور مذہب کی تبدیلی اور زبردستی نکاح کے الزامات لگائے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں دو ہندوؤں کا نکاح کروں؟ مولانا نے استفسار کیا۔اس واقعہ کے بعد علاقہ میں حالات کشیدہ ہیں ۔