حیدرآباد: ریاست تلنگانہ کی تشکیل سے قبل علحیدہ ریاست تلنگانہ کی مانگ کرتے ہوئے ریاست بھر میں مختلف طریقوں کے ذریعہ احتجاج کئے جاتے تھے،مثلاًبند،ریالیاں،وانٹا ورپو،خود کشی،شور شرابا،اور سڑکوں پر کھانا بنانا،یا ثقافتی پروگرام کرنا وغیرہ،یہ سب علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تحریک کاحصہ تھے۔اسی طر ز پرروڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (آر ٹی سی) کے ملازمین اسی طرح کے ہتھکنڈے کا استعمال کر تے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں۔ایسا لگ رہا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔ کے چندر شیکھر راؤ،جن کی سربراہی میں تلنگانہ تحریک نے حکمت عملی کے طور پر ان تمام ذراؤ کو استعمال کیا تھا۔
اتوار کے روز،48000سے زیادہ آر ٹی سی ملازمین نے اپنے کنبہ کے ہمراہ ”وانتا ورپو“پروگرام میں حصہ لیا۔انہوں نے سڑک کے کنارے کھانا پکایا اور وہیں کھانا کھایا۔اسطرح کے مناظر 2009سے 2013کے درمیان جاری تلنگانہ تحریک کی یاد دلا رہے تھے۔اسی دن ا کھمم میں ایک آر ٹی سی ڈرائیور نے، وزیر اعلیٰ کی جانب سے تمام ہڑ تالی ملازمینکو بر طرف کرنے کی بات کی تو وہ افسردہ ہو گیا اور خود کو بند کر لیا۔اس کے اگلے دن ایک کنڈکٹر نے حیدرآباد میں پھانسی لگا کر خود کشی کرلی،کیانکہ اسے دوسرے پڑتالی ملازمین کی طرح ستمبر کی تنخواہ نہیں ملی تھی۔اور اسے لون کی ای ایم آئی بھرنا تھا۔
پانچ اکٹوبر سے شروع ہوئی آر ٹی سی ملازمین کی ہڑ تال کے دوران تین دیگر ملازمین نے خود کشی کرنے کی کو شش کی۔آر ٹی سی ملازمین یونینوں پر مشتمل،جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے اے سی) کا ہڑ تال کرنے کا فیصلہ،چھ سالوں میں کے سی آر کے لئے پہلا بڑا چیلینج تھا۔ان ملازمین کے پاس 26مطالبات کی ایک فہرست ہے،جس میں سے اہم مطالبہ آر ٹی سی کو حکومت میں ضم کرنے سے متعلق ہے۔
واضح ہو کہ ہڑتال کر رہے ملازمین کو وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے پانچ اکٹوبر کو یہ انتباہ دیا تھا کہ شام چھ بجے تک کام پر واپس نہ لوٹنے پران ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بات کہی تھی۔کے سی آر کی اس انتباہ کے باوجود ملازمین نے ہڑ تال جاری رکھی،جس کے بعد کے سی آر نے 48000سے زائد ملازمین کو نو کریوں سے بر طرف کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ آر ٹی سی کے پاس صرف1200ملازمین باقی ہیں،اور دیگر تمام ملازمین ڈیڈ لائن کی معیاد ختم ہونے سے پہلے ڈیوٹی پر واپس نہ آنے پر،خود ہی بر طرف ہو گئے ہیں۔ ساتھ ہی کے سی آر نے ہڑ تالی ملازمین کو واپس لینے سے انکار کیا اور کہا کہ ان کے ساتھ کو ئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔اور عارضی ڈرائیوروں اور نجی بسوں کو استعمال کیا جائے گا۔
ہڑ تالی ملازمین کے ساتھ مزید سختی کرتے ہوئے،انہیں تہوار کے موقع پر ستمبر کی تنخواہ نہیں دی گئی۔اس پر اپوزیشن جماعتوں نے کے سی آر حکومت پر جم کر تنقید کی اور کے سی آر کو ”گھمنڈی“قرار دیا۔اس سے کے سی آر کے حریفوں کو بھی موقع مل گیا،جو تلنگانہ تحریک کے دوران ان کے ساتھ تھے۔
دو آر ٹی سی ملازمین کی خو کشی سے صورتحال سنگین ہونے کے بعد،کے سی آر نے اپنے موقف کو نرم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔اور اپنے قابل اعتماد ساتھی اور مشیر کیشو راؤ کے توسط سے انہوں نے ہڑ تالی عملے کو یہ اطلاع پہنچائی ہے کہ ”حکومت مذاکرات کے لئے تیار ہے۔جے اے سی نے بھی کیشو راؤ کی ثالثی قبول کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے،مذاکرات کے نتائج سے قطع نظر اسے ہڑ تالی عملے کی فتح قرار دیاہے۔