Monday, July 7, 2025
Homeٹرینڈنگیوگی حکومت میں بے قصور نوجوانوں کے خلاف شدید کارروائی

یوگی حکومت میں بے قصور نوجوانوں کے خلاف شدید کارروائی

- Advertisement -
- Advertisement -

لکھنو ۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سارے ہندوستان میں سیکولر اور ہندوستان کو ترقی کی راہ پر دوڑانے میں دلچسپی رکھنے والے ہر ہندوستانی سراپا احتجاج بنا ہوا ہے تو دوسری جانب متعصب ذہنیت کے سیاستداں،پولیس اور بھگت شرپسندیوں میں مصروف ہیں ۔ہندوستان میں جہاں ایک جانب سی اے اے کے خلاف احتجاج ہورہا ہے وہیں حکومتیں احتجاجیوں کے حوصلے پست کرنے کےلئے ظلم و جبر کی داستاں رقم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہے ہیں اور سب سے زیادہ یوگی کی حکومت میں اترپردیش متاثر ہے۔

مظفر نگر جیل سے چار بے قصور لوگوں محمد فاروق، عتیق احمد، شعیب اور محمد خالد کی تقریباً 10 دن کے بعد آزادی ملی۔ معصوم افراد کی اس آزادی کے بعد اتر پردیش حکومت اور پولیس کے دعووں کی قلعی کھلنی شروع ہو گئی ہے کہ کس طرح بے قصور لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

مظفر نگر کے اسسٹنٹ پولس سپرنٹنڈنٹ ستپال نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا کہ جن چار لوگوں کو آزاد کیا گیا ہے ان میں سے ایک سرکاری محکمہ میں ٹائپسٹ ہے اور اسے سی آر پی سی کی دفعہ 169 کے تحت آزاد کیا گیا ہے۔ اس دفعہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جانچ کے بعد اس کا کسی بھی تشدد میں ہاتھ نہیں پایا گیا ہے۔

دوسری طرف رام پور میں ضلع انتظامیہ نے 28 لوگوں کو عوامی ملکیت کے نقصان کی بھرپائی کے لیے 25 لاکھ روپے جمع کرانے کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ انوجنئے کمار سنگھ کے بموجب  ان میں سے دو لوگوں کے خلاف بھیجے گئے نوٹس کو واپس لیا جا سکتا ہے کیونکہ تشدد میں ان کی شمولیت کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے تشدد میں شامل لوگوں کی شناخت کر لی ہے۔

دارالحکومت لکھنؤ میں بھی حکام نے کہا کہ ایک خاتون نے اپنے بیٹے کو بے قصور ثابت کر دیا ہے۔ اس کا بیٹا اس وقت جیل میں ہے اور اس کی رہائی کا حکم جلد جاری ہوگا۔ اتر پردیش کے ایڈیشنل چیف سکریٹری اویناش اوستھی نے کہا کہ حکومت نے سبھی معاملوں کا تجزیہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جو بھی بے قصور پایا جائے گا اسے آزاد کیا جائے گا۔

غور طلب ہے کہ اس سے قبل اتر پردیش حکومت نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) مخالف مظاہروں کے دوران ہوئے تشدد کی تحقیقات  کا ذمہ ضلع سطح پر ایس آئی ٹی (اسپیشل جانچ ٹیم) کے حوالے کیا ہے۔ ان ٹیموں کی قیادت ایڈیشنل پولس سپرنٹنڈنٹ کریں گے۔ ٹیم کا کام ایسے لوگوں کی شناخت کرنا ہے جو اصل معنوں میں تشدد میں شامل تھے۔ ایس آئی ٹی اس لیے تشکیل دی گئی ہے تاکہ کسی بے قصور کی گرفتاری نہ ہو اور اگر وہ غلطی سے گرفتار ہوا ہے تو اسے آزاد کیا جائے۔

یہ سب پر عیاں ہے کہ گرفتار کیے گئےافراد  پر مختلف دفعات میں مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ ان میں غیر قانونی جلسے، قتل کی کوشش، غیر قانونی رخنہ اندازی، مجرمانہ منشا اور سرکاری ملازم پر مجرمانہ حملے وغیرہ شامل ہیں۔ ان لوگوں پر مجرمانہ سازش تیار کرنے اور سرکاری ملکیت کو نقصان پہنچانے کا معاملہ بھی درج کیا گیا ہے۔

سیول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیوں کے اراکین کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ایک خاص طبقہ کے گھروں پر حملے کیے اور سماجی کارکنان کو گرفتار کیا۔ ان میں بہت سے بے قصور لوگوں کو بھی پتھر بازی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے کہا ہے کہ پتھر بازی میں تقریباً 200 پولیس والے زخمی ہوئے ہیں۔

اتر پردیش کے ایسے علاقوں جہاں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، وہاں اس وقت پولیس کا ظلم زبردست خوف پھیلا ہوا ہے لیکن اب زندگی دھیرے دھیرے معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کے اندر ایک خوف کا ماحول ہے کہ پولیس کسی بھی وقت آ کر ان کو نشانہ بنا سکتی ہے۔