اطہر معین
یہود ونصاریٰ ملت اسلامیہ کو نیست و بابود کرنے کیلئے نہ صرف اپنا سرمایہ صرف کررہے ہیں بلکہ مشاہدات و تحقیق کی اساس پر غور و فکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے دور کرنے کے نت نئے طریقے و حربے تلاش کرتے رہتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پاس ایک ادارہ بھی ایسا نہیں ہے جو ملت کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے ان کے تدارک کے لئے عملی لائحہ عمل ملت کے سامنے پیش کرسکے۔ یہود و نصاریٰ نے جب یہ محسوس کیا کہ مسلم امہ پر طبقہ علماء کا بڑا اثر ہے تو مسلمانوں میں علماء کی قدر گھٹانے جو حربے اختیار کئے اس میں انہیں بڑی حد تک کامیابی ملی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ عام مسلمانوں میں علمائے کرام کی وہ قدر و منزلت نہیں ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ ملت کا ہی ایک مخصوص طبقہ علماء کے وقار کو پامال کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملت میں سرایت کرجانے والی برائیوں کے خلاف جب علمائے کرام آواز اٹھاتے ہیں تو ملت اس کا اثر نہیں لیتی جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے۔ سماجی احتساب کی ذمہ داری سے کنارہ کش ہوجانے کی وجہ سے ملت کے نوجوان آزاد ہونے لگے ہیں۔ ایک دور تھا کہ نوجوان طقبہ ہوٹلوں میں محض اس لئے داخل نہیں ہوتا تھا کہ محلہ کے بزرگ اصحاب وہاں موجود ہوں گے اور ہوٹلوں میں دکھائی دینے والے نوجوانوں کو آوارہ تصور کیا جاتا۔ آج یہ صورتحال ہے کہ ہماری ہوٹلوں کی میزوں پر نوجوانوں کو بیٹھا دیکھ کر بزرگ اصحاب پرہیز کرنے لگے ہیں۔ فیشن کے نام پر نوجوانوں میں بے حیائی اور شہوانی جذبات کو بھڑکایا جارہا ہے۔ لباس کا فیشن ہو کہ ہیر اسٹائیل‘ سیل فون کے رنگ ٹونس ہو کہ بائیکس پر لکھے جانے والے فقرے ان سب کے ذریعہ بے حیائی اور گمراہی کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے نوجوان اپنے استعمال کی ہر چیز کو سیکسی بنانا چاہتے ہیں۔ اس بے ہودہ لفظ کا ہماری لڑکیاں بھی استعمال کرتے ہوئے حیا محسوس نہیں کرتی بلکہ کوئی ان کی تعریف کرتے ہوئے انہیںیا ان کے لباس کو سیکسی کہہ دے تو اس کو وہ اپنے لئے داد سمجھتی ہے اور اپنے حسن و جمال پر فخر کرنے لگتی ہے۔ ایک بائیک پر انگریزی میں ایک فقرہ لکھا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ’ میں واپس آچکا ہوں چونکہ دوزخ بھرچکی ہے‘ ۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسے دوزخ کے قہر کا ڈر ہی نہیں ہے اور یہ کہ اسے یقین ہے کہ اس کا ٹھکانہ دوزخ ہی ہے جس کا وہ متمنی بھی ہے۔ گاڑیوں پر ایسے بے ہودہ فقرے درج ہوتے ہیں مگر والدین کبھی اس سے اندازہ نہیں لگا پاتے کہ ان کا بیٹے کا رجحان کیا ہے۔ ٹی شرٹس پر بھی آجکل بے ہودہ تبصرے درج ہوتے ہیں۔ پھٹے پرانے کپڑے پہننے کو فیشن تصور کیا جارہا ہے۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ آجکل کی لڑکیاں ان نوجوانوں کو پسند کرتی ہیں جو میلے کچیلے کپڑے پہنتے ہیں اور جن سے پسینے کی بو آتی ہے۔ کالج حتیٰ کہ اسکولس کے باہر ان نوجوانوں کو گھنٹوں انتظار کرتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ نوجوان اپنے گرل فرینڈ سے ملاقات کیلئے نہ صرف اپنا کالج ترک کرتا ہے بلکہ ملاقاتیں بڑھ جائیں تو لڑکیوں کو بھی کالج چھوڑ کر باہر تفریح کیلئے اس کے ساتھ چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ پچھلے برس ایک عیسائی مشنری کی طالبات نے ہنگامہ مچادیا تھا کہ انہیں محض اس لئے امتحانات میں شرکت سے محروم رکھا گیا تھا کہ وہ اقل ترین حاضری کے لزوم کی تکمیل کرنے سے قاصر رہیں۔ اولیائے طلبہ نے کالج انتظامیہ کی اس زیادتی پر تو واویلا مچایا اور میڈیا کے نمائندوں کو طلب کرتے ہوئے ان کی بچیوں کا سال ضائع کردینے پر افسوس و ملال کا اظہار کیا مگر ان والدین نے یہ غور کیوں نہیں کیا تھا کہ ان کی بیٹیاں تو پابندی سے کالج جایا کرتی تھیں پھر ان کی حاضری کم کیوں ہوگئی؟ شائد ہی کسی لڑکی کہ والدین نے یہ جاننے کی کوشش کی ہوگی کہ آخر وہ گھر سے تو کالج کے لئے نکلا کرتی تھی تو پھر کالج نہیں جاکر کہاں جاتی رہی؟ ہمارے والدین کو اتنی فرصت ہی کہاں ہے کہ وہ کالج جاکر اساتذہ اور انتظامیہ سے اپنے بچوں کے تعلیمی مظاہرہ کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہیں۔ یہ نوجوان اپنی محبوباؤں کو گاڑیوں پر لانگ ڈرائیو کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کی جانب سے حجاب کو نشانہ بنایا جارہا ہے مگر ہمارے شہر کی کالج جانے والی لڑکیوں میں حجاب مقبول ہوتا جارہا ہے‘ حتیٰ غیر مسلم بھی حجاب استعمال کررہی ہیں چونکہ یہ ان کے لئے سود مند ثابت ہورہا ہے۔ نوجوان کی بائیک کی پشت پر ہیجان انگیز حالت میں بیٹھ کر گھومنے سے ان کے شناخت کرلئے جانے کا خدشہ رہتا ہے اس لئے وہ اپنا چہرہ ڈھانپنے کے لئے اوڑھنی سے چہرہ ڈھانپنا شروع کردیا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ بعض کالج کے پاس دکانات پر برقعہ بھی کرایہ پر دیا جاتا ہے چونکہ روزانہ استعمال کئے جانے والے برقعہ پر کالج کے باہر گھومتے ہوئے گھر کے کسی فرد کی نظر میں آجانے کا ڈر لگا رہتا ہے اس لئے برقعہ کی تبدیلی سے ان کی شناخت مخفی رہ جاتی ہے۔ شہر میں ایسے کئی مخصوص آئسکریم پارلرس اور کیفے ٹیریاز ہیں جہاں عاشق جوڑوں کو تنہائی میسر کروائی جاتی ہے اور گھنٹہ کے حساب سے انہیں چارج کیا جاتا ہے۔ کبھی ہمارے والدین نے ان مقامات پر اپنے بچوں کی موجودگی کا پتہ چلانے کی کوشش نہیں کی۔ لڑکیوں پر خرچ کرنے کے لئے ماں باپ سے انہیں جو جیب خرچ ملتا ہے وہ کم پڑنے لگا ہے اس لئے کئی امیر اور شریف گھرانوں کے لڑکے چوریوں کے مقدمات میں پکڑے جانے بھی لگے ہیں۔ راتوں میں اب ہمارے محلوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر نوجوان دکھائی دیں گے جو اپنے کان سے سیل فون لگائے گھنٹوں دھیمی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے ٹہلتے رہتے ہیں۔ آخر یہ نوجوان رات کے اوقات کونسی اہم گفتگو کررہے ہوتے ہیں؟ یقیناً یہ لڑکیوں سے ہی بات کررہے ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی کی بیٹی یا بہن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ فون پر کسی کی بہن یا بیٹی سے بات کررہے ہوتے ہیں اور کوئی دوسرا ان کی بہن سے بات کررہا ہوتا ہے۔ سیل فون پر جو گفتگو ہوتی ہے وہ یقیناً بے ہودہ نہیں بلکہ اخلاق کی تمام حدود کو پار کی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ نوجوان اپنی محبوباؤں کو سیل فون پر کی جانے والی گفتگو میں خلوت کی تصوراتی دنیا کی سیر کرواتے ہیں۔ ماں باپ کو چاہئے کہ وہ کم ازکم اپنے بیٹوں کو رات کے اوقات گھر سے باہر نکلنے نہ دیں اور ان سے کہا جائے کہ وہ اپنے سیل فونس سوتے ہوئے بھی اپنے پاس رکھنے کی بجائے دالان میں ایک جگہ رکھ دیا کریں۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ ہمارے بچیوں کے بگاڑ پر بھائیوں کی غیرت کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ سب کچھ سہن کرجارہے ہیں مگر مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ بھائی کے عشق کی رازدان بہن ہے اور بہن کے عشق کا رازدان بھائی ہے۔
بھائی کے عشق کی رازداں بہن اور بہن کے عشق کا رازداں بھائی
- Advertisement -
- Advertisement -