حیدرآباد ۔ بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کئی گوشوں سے اس فیصلے کو انصاف اور جمہوریت کے خلاف فیصلہ قراردیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں حیدرآباد میں خواتین کی جانب سے سعید آباد کے علاقے عیدگاہ اجالے شاہ میں قنوت نازلہ ( نماز ) پڑھی گئی تھی جس کے ایک دن بعد اس نماز میں شرکت کرنے اور اس کا اہتمام کرنے والی خواتین کے خلاف پولیس نے ملک سے غداری جیسے سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے ۔
خواتین کے خلاف مقدمات درج کئے جانے کی مذمت کی جارہی ہے اور خاص کر تلنگانہ حکومت کے ہمراہ حیدرآباد کی مقامی سیاسی جماعت ایم آئی ایم سے بھی پور زور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ ان مقدمات کو واپس لینے کےلئے پولیس کو ہدایت دیں ۔ اس خصوص میں مجلس بچاؤ تحریک کے نوجوان قائد امجد اللہ خان نے خواتین کے خلاف مقدمات درج کئے جانے کی شدید الفاظ میں نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ انہوں نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر، وزیر داخلہ محمود علی خان ، ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی ،مقامی رکن اسبملی اکبرالدین اویسی کے علاوہ بلالہ کو مخاطب کرتے ہوئے مسلم خواتین کے خلاف مقدمات کو واپس لینے میں اپنے رول ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امجد اللہ خان نے اپنے بیان میں کہا کہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں خاص کر جہاں خود بی جے پی کی حکومت ہے وہاں عوام کو جلسہ ، جلوس اور ریالی منعقد کرنے کی اجازت دی جارہی ہے لیکن اس کے برعکس حیدرآباد میں عوام کو ریالی تو درکنار پریس کانفرنس تک کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے جس کی تازہ مثالیں حالیہ دنوں میں سامنے آئی ہیں جس میں ڈی جے ایس کے ماجد کو نہ صرف پریس کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ ان پر سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے انہیں گرفتار بھی کیا گیا ، وہیں دوسری جانب بی جے پی کے ایم ایل اے راجہ سنگھ اور دیگر قائدین کو ہر معاملے کی کھلی چھوٹ ہے ۔
امجد اللہ خان ایم آئی ایم کے قائدین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ جہاں پر خواتین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا وہاں مجلس کا کارپوریٹر ہے ، مجلس کا رکن اسمبلی حیدرآباد کے رکن پارلممنٹ میں یہ علاقہ آتا ہے جس کے باوجود مقدمہ کے خلاف کارروائی میں خاموشی معنی خیز ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے سٹی پولیس کمیشنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلم عوامی محفلوں میں شرکت کرتے ہیں، امن وامان کی بات کرتے ہیں اور پیارے نبی ﷺ کا حوالہ دیتے ہیں لیکن پھر مسلم خواتین کے خلاف ہی مقدمات درج کرتے ہیں جس سے عوام میں حیدرآباد پولیس کے متعلق ایک غلط پیغام جارہا ہے اور ساتھ ہی ٹی آر ایس حکومت پر سوالیہ نشان بھی لگ رہا ہے۔
حیدرآباد کے نوجوان قائد نے اپنے ویڈیو پیغام میں مزید کہاکہ ریاست تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی حکومت ہے اور یہ وہی حکومت ہے جسے تمام مسلم تنظمیوں ، علماءاور مشائخین کے علاوہ مقامی جماعت مجلس نے اپنی حمایت دی ہے لیکن خواتین کے خلاف مقدمات کے ضمن میں کے سی آر اور انکے بیٹے کے ٹی آر کے علاوہ مسلم لیڈر محمود علی کی خاموشی ناقابل فہم ہے ٹی آر ایس کی حمایت کرنے والی تنظمیں اور جماعتیں بھی ہنوز خواب غفلت میں ہیں ۔
مجلس پر اپنی تنقید تیز کرتے ہوئے امجد اللہ خان نے کہا کہ خواتین کے خلاف مقدمات پر حیدرآبادی سیاسی جماعت کی خاموشی ان شبہات کو پیدا کررہی ہے کہ شاید مجلس اور اسد الدین اویسی حیدرآباد میں ” ون مین شو“ کو برقرار رکھنے کےلئے کسی اورجماعت یا تنظیم کو عوامی سطح پر ابھرنے نہیں دینا چاہتے ہیں اور دوسری کوئی تنظیم اگر ملت کے کسی مسئلے پرکوئی احتجاج ، ریلی یا اجتماع کرتی ہے تو اسے کے خلاف مقدمات درج کرواتے ہوئے خوف پیدا کرنے کی کہیں کوئی کوشش تو نہیں کی جارہی ہے؟۔ اسے کے علاوہ انہوں نے پولیس کمشنر ، سیاسی جماعت مجلس اور اس کے قائدین، محمود علی ،کے ٹی آر اور چیف منسٹر کے سی آر سے مطالبہ کیا ہے کہ سعید آباد واقعہ میں خواتین کے خلاف درج مقدمات کو فوراً واپس لینے کے موثر اقدامات کریں ۔