Sunday, June 8, 2025
Homeٹرینڈنگاچار پیٹ کے کینسر کی وجوہات میں سرفہرست

اچار پیٹ کے کینسر کی وجوہات میں سرفہرست

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ آم کا اچار، املی کا اچار، لیمو کا اچار، ترکاری کا اچار، گوشت کا اچار اور نہ جانے کتنے قسم کے اچار مارکٹ میں دستیاب ہیں جبکہ حیدرآبادی عوام میں دالچہ اور باگارا کھانا کے ساتھ اچار مقبول ڈش تصور کی جاتی ہے لیکن حالیہ تحقیق کی روشنی میں ڈاکٹروں نے انتباہ دیا ہیکہ جنوبی ہندوستان اورخصوصاً دونوں تلگو ریاستوں میں پیٹ کے کینسر کے بڑھتے معاملات میں اچارکا استعمال کلیدی رول ادا کررہا ہے کیونکہ اچار میں نمک کی مقدار زیادہ ہونے کے علاوہ دیگر مصالحہ جات بھی پائے جاتے ہیں جو کھانے والے کیلئے پیٹ کے کینسر کی وجہ میں کلیدی رول ادا کررہے ہیں۔

کھانوں کی عادات اور جنوبی ہندوستان کے عوام میں کینسر کی تجزیاتی مطالعہ میں یہ واضح کیا ہیکہ گیسٹرک کینسر کی ایک بڑی وجہ اچار ہیں۔ گیسٹروآنکوکن2019 ءکے خصوص میں اظہارخیال کرتے ہوئے اپولوکینسر انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر پی وجئے آنند ریڈی نے کہا ہیکہ اچار جہاں دونوں تلگو ریاستوں کی عوام میں کینسر کی ایک اہم وجہ بن رہا ہے تو وہیں دوسری جانب عوام اور ڈاکٹروں کے درمیان بہتر رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے مریض کینسر کا علاج کیلئے اس وقت رجوع ہوتے ہیں جب یہ تیسرے اور چوتھے مرحلہ میں داخل ہوچکا ہوتا ہے۔

 دنیا بھر میں 1.6 ملین کینسر کے معاملات درج کئے جاتے ہیں جس میں ایک ملین افراد پیٹ یا حلق کے کینسر سے متاثر ہوتے ہیں جس میں 60 فیصد افراد بدقسمتی سے موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ تلگو ریاستوں میں گیسٹرک کینسر تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے کیونکہ دیہاتوں میں لوگ سالن کے طور پر اچاروں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جبکہ کھانے کے بعد گرم چائے اورکافی سے بھی انہیں احتیاط کرنی ہوگی۔

 اچاروں میں زائد نمک استعمال کیا جاتا ہے اور یہی گیسٹرک کینسر کی ایک وجہ بن رہا ہے۔ ماہرین صحت نے مشورہ دیا ہیکہ کھانے کے عادات میں تبدیلی کرنے کے علاوہ تازہ ترکاریاں استعمال کرنے کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ ایک وقت تھا جب 50 سال کی عمر میں کینسر کا خدشہ رہتا تھا لیکن اب 30 برس کی عمر میں ہی یہ خدشات بڑھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر پی وجئے آنند ریڈی نے اعدادوشمارکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں 2016-17ءمیں کینسر کے معاملات 6 لاکھ درج کئے گئے تھے لیکن 2018-19ءمیں یہ 15 لاکھ تک پہنچ چکے ہیں۔