Tuesday, April 22, 2025
Homeٹرینڈنگوردی میں شر انگریزی ،گاڑیوں کو نقصان پہنچانے والے ویڈیوز سے عوام...

وردی میں شر انگریزی ،گاڑیوں کو نقصان پہنچانے والے ویڈیوز سے عوام فکر مند

- Advertisement -
- Advertisement -

لکھنو ۔اتر پردیش کے متعدد شہروں کی خبریں پریشان کن ہیں اور ان خبروں میں پولیس تشدد کی جو تصویر سامنے آئیں وہ انتہائی خوفناک ہے۔ مظاہرین کی طرف سے تشدد بھی ہوا اور پتھربازی بھی کی گئی، لیکن وہ مظاہرین ہی تھے یا باہری لوگ ان میں شامل ہوگئے تھے یہ ایک تفتیش کا پہلو ہے۔ دہلی میں میڈیا لمبے لمبے انٹرویوز لینے میں مصروف ہے لیکن مظفر نگر اور بجنور سے آنے والی اطلاعات بتا رہی ہیں کہ ان انٹرویو کے بجائے ان رپورٹس کو مزید جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ صحافی سوربھ کی رپورٹ سے پہلے، ہم ایک اور رپورٹ سے ایک قصہ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔

 سکرول انڈیا سے متعلق سپریا شرما کی رپورٹ کا آغاز 55 سالہ رفیق احمد کی کہانی سے ہوتا ہے۔ رفیق احمد ایک ٹھیکیدار ہیں اور علاقے کے لوگ انہیں پہچانتے ہیں۔ 20 دسمبر کو مسجد سے باہر آنے کے بعد پولیس نے کہا کہ آپ لوگوں سے اپیل کریں۔ پولیس کے کہنے پر رفیق نے انہیں کے لاوڈ اسپیکر سے امن برقرار رکھنے اور گھر جانے کی اپیل کی جبکہ ان کے مطابق اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہاں 100 افراد بھی جمع نہیں تھے۔ رفیق احمد نے دیکھا کہ بہت سے لوگ سادہ لباس میں کھڑے ہیں۔ جب انہوں نے پولیس سے پوچھا تو جواب نہیں ملا۔ جب وہ واپس جانے لگے تو انہوں نے آنسو گیس کے گولے کی آواز سنی اور لاٹھیاں ان کے سر سے ٹکرانی شروع ہو گئیں۔ کوئی پتھر نہیں پھینکا گیا تھا، اس کے باوجود پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ یہ واقعہ نہٹور کے نیزا سرائے علاقہ کا ہے۔

یوپی پولیس کے سربراہ نے 21 دسمبر کو کہا تھا کہ یوپی پولیس نے کوئی گولی نہیں چلائی لیکن اب یہ مان لیا ہے کہ گولی چلی ہے۔ بجنور میں دو افراد کی موت ہوئی ہے۔ ایس پی بجنور نے اعتراف کیا ہے کہ 20 سالہ طالب علم سلیمان کی گولی لگنے سے موت ہوئی ہے کیونکہ پولیس کے جوان نے اپنے دفاع میں گولی چلائی تھی اگر یہی بات ہے تو پولیس سربراہ نے یہ کیوں کہا کہ پولیس نے کوئی فائرنگ نہیں کی اور مظاہرین ایک دوسرے کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں!

مظفر نگر میں تشدد کی کہانی نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ وہاں مظاہرین پر فائرنگ کس نے کی، مکانات اور دکانوں کو کس نے لوٹا؟ کیا دیگر تنظیموں کے لوگ تشدد کی نیت سے مظاہرین پرگولی چلانے آئے تھے؟ کیا انہیں پولیس کی پشت پناہی حاصل تھی؟ اسکرول ڈاٹ اِن کی سپریا شرما نے کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ سعید الزماں کے بیٹے سے بات کی ہے۔ ان کی چار کاریں نذر آتش کر دی گئی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ پولیس اور سنگھ (آر ایس ایس) کے لوگوں نے تشدد کیا۔

سوربھ شکلا نے کہا ہے کہ مظفر نگر کی صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ پولیس نے توڑ پھوڑ کی ہے۔ یہ سب حرکات کیمرے میں قید نہ ہوں اس لئے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیئے گئے ہیں۔ آخر پولیس کو سی سی ٹی وی کیمرے توڑنے کی ضرورت کیوں پڑی؟

اگر پولیس کے دعووں میں سچائی ہے تو پھر وہ سی سی ٹی وی کیمرے کیوں توڑ رہی ہے، کیا یوپی پولیس نے ایسا کچھ کیا ہے جس کے بارے میں بات نہیں کی جارہی ہے اور اس کے بارے میں بات کرنے کے ثبوت بھی باقی نہیں رہے! لوگ ڈر کی وجہ سے بات کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی میرٹھ جاکر زخمیوں سے ملنا چاہتے تھے لیکن انہیں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پولیس کے دعووں پر سنگین سوالات اٹھ چکے ہیں ۔

 مظاہرین پر تشدد کا الزام عائد کرنا آسان ہے لیکن پولیس کے تشدد کا کیا؟ اگر دوسرے افراد پولیس کی موجودگی میں مظاہرین کے خلاف تشدد کرتے ہیں تو پھر وہ کون ہیں؟ کیا تشدد بھڑکایا گیا تاکہ کارروائی کا بہانہ مل جائے؟ اس کی تفتیش کیسے ہوگی اور اگر ہوگی توکب تک جاری رہے گی؟ بنارس، لکھنواور دیگر کئی شہروں میں متعدد لوگوں کی گرفتاری کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

نظم ونسق سنبھالنا پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن بہت ساری ویڈیوز ایسی بھی منظر عام پر آ رہی ہیں جن میں لوگ پر سکون انداز میں چل رہے ہیں اور پولیس اچانک پیچھے سے لاٹھی چارج کرنے لگتی ہے۔ کہیں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں پولیس انہیں پکڑکر زدوکوب کرنے لگی ہے۔ دو پولیس اہلکار ایک شخص کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں، دو لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔ کبھی تین پولیس اہلکار لاٹھیاں چلا رہے ہیں اور کبھی دو پولیس والے لاٹھی سے مار رہے ہیں۔ اتنے قریب سے اتنے زور سے مارنے کی کیا ضرورت تھی!

ہم نے گنتی کی ہے۔ ایک ویڈیو میں سولہ لاٹھیاں ریکارڈ ہوئی ہیں اور اس کے بعد کیمرے کا رخ بدل جاتا ہے۔ ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ اب اس شخص کی حالت کیا ہوگی۔ اتنی لاٹھی کھانے کے بعد اسے کون سے اسپتال میں داخل کیا جائے گا، صحتیاب ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ یہ ویڈیو کانپور کے علاقے بابو پوربا تھانہ علاقہ کی ہے اور 20 دسمبر کو ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس تشدد میں پولیس نے لوگوں کو پکڑ کر زد و کوب کیا۔ یہاں کے تین لوگوں کی تشدد میں موت ہو گئی۔پولیس کی اس طرح کی بربریت کی ویڈیوز واٹس ایپ میں کافی گشت کر رہی ہیں، ان ویڈیوز میں پولیس کی کارروائی نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے اور پولیس کو اس طرح تشدد کرتے ہوئے دیکھنے پر لگتا ہے کہ اس کا مقصد صرف نظم و نسق کی صورت حال بہتر کرنا نہیں تھا بلکہ کچھ اور تھا۔

یوپی پولیس کے سربراہ او پی سنگھ نے کہا کہ پولیس نے کوئی گولی نہیں چلائی تھی۔ جبکہ گولی سے ہی 15 سے 16 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ میڈیا میں گولی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کہیں 15 ہے تو کہیں 18 بھی ہے۔ پولیس نے کہا تھا کہ 50 سے زیادہ پولیس اہلکار کو گولی لگی ہے یا وہ زخمی ہوئے ہیں۔ 22 دسمبر کو جب صحافی آلوک نے پولیس چیف او پی سنگھ سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ آپ جو بھی چلانا چاہتے ہو چلا سکتے ہیں۔ 21 دسمبر کو یوپی پولیس چیف کا بیان ہے کہ پولیس نے کوئی فائرنگ نہیں کی اور ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی۔ مظاہرین آپس میں فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہو گئے!

کانپور میں 30 سالہ محمد رئیس انتقال کر گئے ہیں۔ جمعہ کو رئیس کو گولی مار دی گئی تھی۔ رائیس بابو پوربا علاقے میں مزدور کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ انتظامیہ کا کوئی فرد ان کے والد سے ملنے نہیں دیا گیا۔ سبھاشنی علی محمد رئیس کے والد کے پاس گئی تھیں۔

صرف یہی نہیں، لوگوں کی گرفتاریوں پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ طلبائ، سماجی کارکنوں اور عام لوگوں پر بہت سی سنگین دفعات عائد کی گئی ہیں۔ ایسی شکایات آرہی ہیں کہ پولیس گرفتار افراد کو قانونی اور دیگر سہولیات کی فراہمی میں رخنہ ڈال رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ پولیس یہ کہے گی کہ اس کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لکھنو میں جن لوگوں کی گرفتاری ہوئی ہے ان میں دیپک کبیر بھی شامل یہں جوکہ تھیئٹر کے اداکار ہیں۔ جب وہ اپنے دوستوں کے بارے میں پتہ کرنے کے لئے تھانے گئے تو انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔

مظاہرے میں دیپک کبیر اور ان کی اہلیہ شامل تھے لیکن اس دن انھیں گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ اگلے دن ان کا نام ایف آئی آر میں جوڑ دیا گیا۔ ان پر قتل اور فساد بھڑکانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

شہریت ترمیمی قانون کی حمایت میں بھی جلسے اور جلوس جا ری ہیں۔ کچھ مقامات پر ان حمایتی جلوسوں میں گولی مارنے کے نعرے ہوسکتے ہیں۔ لیکن پولیس کو ان کی گولی مارنا فساد کو بھڑکانے یا اکسانے والا نظر نہیں آتا ہے۔ شاید ان حامیوں کے منہ سے نکل رہی گولیوں کے نعروں میں اسے شاعری نظر آتی ہے۔ دہلی میں بی جے پی رہنما اور کٹیہار میں بھی اے بی وی پی رہنما کی گولی مارنے کے نعروں والی ویڈیو دیکھی گئی ہے۔

یہ ویڈیو بہار کے دربھنگہ کی ہے، جہاں شہریت ترمیمی قانون کی حمایت میں ایک ریلی نکالی گئی تھی۔ اس ریلی میں کچھ لوگ تلواریں لے کر کیا کر رہے تھے؟ کیا تلوار ہتھیار نہیں ہے؟ کیا قانون کسی فرقہ کو تلوار سے مظاہرہ کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ اس ریلی میں دربھنگہ نگر سے بی جے پی کے ایم ایل اے سنجے سراواگی اور ایم ایل سی ارجن سوامی نے بھی شرکت کی۔ لیکن کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔الغرض وردی کے سہارے جو تخریب کاری ہورہی ہے وہ اتفاقی کارروائی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔