نئی دہلی۔ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرنے لگے، دہلی میں لاکھوں افراد کے مظاہروں کے بعد سکیورٹی فورسز نے ڈرون سے نگرانی شروع کردی۔ ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ احتجاج میں شرکت کرنے پر جرمنی کے طالب علم کے بعد ناروے کے شہری کو ملک چھوڑنے کے احکامات دے دیئے گئے۔ پولیس نے مظاہروں کے دوران نقصان کی ذمہ داری عوام پر ڈال کرکروڑوں روپے ہرجانہ ادا کرنے کے نوٹس بھیجنا شروع کر دیئے۔
دہلی میں مظاہروں کو روکنے کے لئے دفعہ 144 کے تحت امتناعی احکامات نافذ ہیں۔ فصیل شہر جامع مسجد، سلیم پور، جور باغ اور شاہین باغ جیسے علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کئے اور بڑی تعداد میں لوگ پیدل مارچ کر کے وزیراعظم کی رہائش گاہ تک جانے کی کوشش کی تاہم جامع مسجد کے علاقے سے مظاہرین کو باہر نکلنے نہیں دیا گیا۔
ممبئی میں بھی کئی تنظیموں بھی سراپا احتجاج بنیں۔ خواتین کی بڑی تعداد شامل ہوئی۔ مظاہرین بائیکلہ روڈ پر مظاہرہ کرنا چاہتے لیکن پولیس نے اجازت نہیں دی تو سب ممبئی کے معروف آزاد میدان میں جمع ہوئے۔
اس موقع پر آل انڈیا ڈیموکریٹک وومن اسوسی ایشن کی سربراہ مالنی بھٹّاچاریہ نے مودی حکومت پر آئین کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا۔
زیادہ پابندیاں ریاست اترپردیش (یو پی) میں نافذ کی گئی ہیں جہاں لکھنوسمیت متعدد حساس علاقوں میں سکیورٹی سخت کی گئی ہے۔ انتظامیہ نے لکھنوسمیت 21 اضلاع میں انٹرنیٹ کو معطل کر دیا ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد ہونے والے مظاہروں پر نظر رکھنے کے لیے ڈرونز سے نگرانی کی گئی ۔ ریاست کے تقریبا دو تہائی علاقے میں انٹرنیٹ جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔
متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج پر تشدد شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، پندرہ روز قبل شروع ہونے والے احتجاج میں اب تک 30 کے قریب افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔
پولیس نے کہا ہے کہ 1100 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کو حفاظتی حراست میں لیا گیا ہے۔ 2013ءمیں مغربی یوپی میں فرقہ وارانہ فسادات کے بعد سے پولیس کی یہ اب تک سب سے بڑی کارروائی ہے۔
انتظامیہ نے کہا ہے کہ مظاہروں کے دوران پولیس کی جیپ کو آگ لگانے پر ساڑھے 7 لاکھ روپے وصول کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ وائرلیس سیٹ لاوڈ اسپیکر، ہوٹر کے توڑنے پر 31500 روپے وصول کیے جائیں گے۔ پولیس بیریکیڈ توڑنے پر ساڑھے تین لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے۔
اس کے علاوہ مظاہروں میں مبینہ تشدد کی کوششوں پر قابو پاتے ہوئے ٹوٹنے والی پولیس کی لاٹھیوں اورگولیاں چلانے کا خرچ بھی مظاہرین ادا کریں گے۔ انتظامیہ اس کے لیے اب تک کروڑوں روپے کے نوٹس بھیج چکی ہے۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق مراد آباد میں 200 اور میرٹھ میں 48 لوگوں کو نوٹس بھیجاگیا ہے۔ لکھنومیں 110، رام پور میں 79 مظفرنگر میں 73 کانپور میں 50 سنبل میں 26 بلند شہر میں 19 فیروز آباد میں 29 گورکھپور میں 34 اور موو میں 8 لوگوں کو نوٹس بھیجا گیا ہے۔
پولیس نے کہا ہے کہ ابھی مزید لوگوں کی شناخت کی جا رہی ہے۔ لکھنومیں جنہیں نوٹس جاری کیا گیا ان میں سے بعض اہم نام ریٹائرڈ پولیس آفیسر ایس آر داراپوری، کانگریس کی لیڈر اور اداکارہ صدف جعفر اور محمد شعیب ہیں۔
اترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ یوگی نے ہرجانہ وصول کرنے کے احکامات دیے ہیں، جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے تمام کارروائی مکمل کی ہے۔ جن لوگوں کو نوٹس بھیجا گیا انہیں ایک ہفتے میں جواب دینے کے لیے کہا گیا ہے۔
آگرہ میں سیاحت دم توڑنے لگی ہے، تاج محل کے سیّاحوں کی توجہ کا مرکز ہے، صبح سے شام چھ بجے تک انٹرنیٹ معطلرہا۔ بجنور، بلند شہر، مظفرنگر، میرٹھ، علی گڑھ، غازی آباد، فیروزآباد، شامبلی، رام پور، سیتا پور، کانپور اور لکھنو جیسے شہروں سمیت تقریبا دو تہائی یوپی میں انٹرنیٹ نہیں ہے۔
کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ پر وزیر داخلہ امیت شاہ پر سخت نکتہ چینی کی۔اپوزیشن کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وفاقی وزیر پی چدمبرم نے لِنڈ ن تھال کو ہندوستان چھوڑنے کا حکم دیے جانے کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ان دنوں جس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں وہ اسی طرح کے ہیں جیسا کہ ایڈولف ہٹلر کے دور میں جرمنی میں پیش آئے تھے۔