برلن ۔اسلام اور جرمنی کی سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین کے مابین تعلقات کو ایک حساس اور مشکل موضوع تصور کیا جاتا ہے لیکن حالات بدلتے دیر نہیں لگتی اور اب اسی جماعت نے میئر کی نشت کے لیے ایک 37 سالہ مسلمان امیدوار اوزان ایبش کا انتخاب کیا ہے۔ اس مسلمان امیدوار کا انتخاب میونخ کے شمال میں واقع قصبے نوئے فارن کی سی ایس یو کی مقامی انجمن نے متفقہ طور پر کیا ہے۔ اس قصبے کی آبادی تقریباﹰ 20 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
اوزان ایبش 2007ء سے سی ایس یو کے رکن ہیں۔ ماضی میں انہیں نہ صرف جرمن قدامت پسند اور انتہائی دائیں بازو کے کارکن دھمکیاں دے چکے ہیں بلکہ وہ مسلمان قدامت پسندوں کے نشانے پر بھی رہے ہیں۔ میونخ میں سی ایس یو کے پارٹی ہیڈکوارٹرز میں اس مسلمان امیدوار کے انتخاب پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ سی ایس یو کی اعلیٰ قیادت نے بھی ایک ترک مہاجر کے بیٹے کی حمایت کی ہے۔ اس حوالے سے سی ایس یو کے جنرل سیکرٹری مارکوس بلومے نے کہا ہے کہ اوزان ایبش کو مقامی اور مرکزی سطح پر سی ایس یو کی صد فیصد حمایت حاصل ہو گی۔
سی ایس یو میں روایتی طور پر مسلمان امیدواروں کی مخالفت کی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال سینر ساہین ہیں، جو میونخ کے مغربی علاقے والرشٹائن میں میئر کی نشت کے امیدوار تھے۔ اس 44 سالہ امیدوار کو جماعت کی حمایت حاصل تھی لیکن کارکنوں کی شدید مخالفت کے بعد انہیں اپنی نامزدگی واپس لینی پڑی تھی ۔ جرمنی میں پیدا ہونے والے ترک نژاد ساہین کے لیے واضح تھا کہ ان کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے۔ اس خصوص میں انہوں نے کہا ہے کہ مخالفت صرف ایک وجہ سے ہوئی، وہ یہ تھی کہ ایک مسلمان کس طرح کرسچن سوشل یونین کا امیدوار ہو سکتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔
دوسری جانب اس سیاسی جماعت میں ابھی تک مسلمانوں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پیٹر گراؤ وائلر اس جماعت کے سرکردہ کارکنوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا حال ہی میں دیا گیا ایک بیان اس حوالے سے بحث پیدا کر چکا ہے۔ کیا مسلمان اس جماعت کے اہم عہدوں تک پہنچ سکتے ہیں؟ اس حوالے سے انہوں نے کہا ہے کہ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم ایک عیسائی جماعت ہیں اور ہم نے یہ جماعت اسی بنیاد پر بنائی تھی۔ کسی مسلمان کے پاس اس جماعت کے سربراہی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایسے ہی ایک مضحکہ خیز بات ہے، جیسے کہا جائے کہ پادریوں کا مرکز مسلمانوں کے مقدس شہر میں بنایا دیا جائے ۔
اسی طرح مقامی سطح پر اب بھی مسلمان امیدواروں کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ کیا اوزان ایبش مارچ میں ہونے والے انتخابات جیت پائیں گے، اس حوالے سے فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ ان کی کامیابی کی صورت میں 1964ء کے بعد پہلی مرتبہ یہاں کے مقامی انتخابات شہ سرخیوں میں جگہ بنائیں گے۔