نئی دہلی ۔ وجود زن سے کائنات میں رنگ کا نظریہ مشرقی اقدارکا ترجمان ہے اور کئی برسوں کے دوران امریکی خاتون اول کا کردار نمایاں ہوا ہے لیکن ہندوستان میں ایسا نہیں ہے اور اس معاملے ہندوستان ہنوز ابھی دور ہے تاہم ہندوستانیوں کو بس امید ہے کہ ملک کے مستقبل کے رہنماوں کی شریک حیات اپنے شوہروں کے سائے تلے منظر پر نہ صرف آئیں گی بلکہ انکا بھی سیاسی منظر نامہ پر ایک اہم کردارہوگا۔ ہندوستان کا دورہ کرنے والی امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ کے لئے بھی ایک پروگرام کا اہتمام کیا گیا جس میں محبت کی نشانی اور مغل بادشاہوں کی یادگار تاج محل نے ایک شاندار پس منظر کی حیثیت سے اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور احمد آباد میں امریکی پہلی خاتون کو دل کھول کر مبارکباد پیش کرنے والے بڑے ہجوم نے انکی میزبانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ان کے ساتھ تصاویر کھینچنے کے ساتھ ان لمحات کو یادگار بنایا ہے۔
خاتون اول نے دہلی کے دورہ کے موقع پرگورنمنٹ اسکول کا معائنہ بھی کیا اور یہ پہلا موقع تھا جب کسی امریکی خاتون اول نے ہندوستان میں کسی اسکول کا دورہ کیاہو۔ اس دورے کا اہتمام اس وقت کیا گیا جب میلانیا نے دہلی حکومت کے ذریعہ متعارف کروائے گئے خوشی نصاب میں دلچسپی ظاہر کی جس سے نظام تعلیم کو بہتر بنانے کا ایک جدید اقدام کیا گیا ہے۔ اسکولوں میں یہ اختراعی نصاب 2 جولائی 2018 کو شروع کیا گیا تاکہ طلبہ کو تناوسے دور رہنے میں مدد ملے۔ ایک ہزار سے زائد اسکولوں میں ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ طلبہ کو یہ نصاب پڑھایاجارہا ہے۔ روزانہ 45 منٹ کی خوشی کی کلاس عام طور پر پہلی جماعت سے ہشتم جماعت کے طلبہ کے لئے پہلی مدت ہوتی ہے ، جب کہ کنڈرگارٹن کے بچوں میں ہفتے میں دو مرتبہ یہ کلاس ہوتی ہیں۔
خوشی کا نصاب تعلیم کے شعبے میں اروند کیجریوال کی سربراہی میں عام آدمی پارٹی (عآپ) کی حکومت کے اہم منصوبوں میں شامل ہوگیا ہے۔ اکتوبر 2019 میں ڈچ کنگ ولیم الیگزینڈر اور ملکہ میکسما کے پاس بھی خوشی کی کلاس کے شواہدملتے ہیں۔امریکی خاتون اول کا کردار محض آرائشی ہونے تک ہی محدود نہیں ہے اور یہ مرتا واشنگٹن کے دنوں سے نمایاں طور پر منظر عام پرآیا ہے جس نے جارج واشنگٹن کے دور صدارت کے دوران مہمانوں کی میزبانی کی تھی۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے عالمی دوروں کو مثبت انداز میں استعمال کیا ہے۔جیکولین کینیڈی جنہوں نے 60 کی دہائی میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور اپنے اس دورے کے ذریعہ انہوں نے لوگوں پر ایک زبردست تاثرچھوڑا تھا۔
ہندوستانی بھی روزلن کارٹر اور ان کے شوہر جمی سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ ہریانہ کے گاوں چوماکھیراگاوں کے نام سے ان کے دورے کے اعزاز میں اس کا نام کارٹرپوری رکھ دیاگیا تھا۔ ہلاری کلنٹن امریکہ میں ایکگھریلو نام تھا لیکن انہوں نے خاتون اول بننے کے بعد بھی ہندوستان میں اپنی دلچسپی جاری رکھی۔ اسی طرح مشیل اوباما نے اپنے دو دوروں کے دوران ہندوستان پرجادوئی اثرات مرتب کئے ۔
میلانیا کے دورے نے بھی کافی دلچسپی پیدا کی کیونکہ وہ ملک کا دورہ کرنے والی ایک انتہائی گلیمرس خاتون اول تھیں اور ان کے احتیاط سے منتخب ملبوسات نے مختلف محافل میں کافی ہلچل مچا دی ۔ خوبصورتی اور جمالیاتی حس اور اس کے واضح گلیمر کے باوجود انہوں نے خود کو انکساری کی تصویر کے طور پر خود کو پیش کیا ۔ گارڈین اخبار نے ایک بار میلانیا کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ شاذ و نادر ہی دیکھا اور اس سے بھی کم ہی سنا تھا۔ یہ سابق ماڈل اپنے پیشرو مشیل اوباما کی طرح مقبول نہیں ہوسکتی ہے لیکن عوامی سطح پر وہ اپنے شوہر سے کہیں زیادہ مشہور ہیں۔
اتفاقی طور پر بہت ساری خاتون اول نے اپنی مشہور شخصی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے دل کے قریب کچھ خاص مقصد کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا ۔ جیسا کہ جیکولین کینیڈی نے امریکی فنون کو فروغ دیا ، ایلینر روز ویلٹ نے شہری آزادیوں سمیت ترقی پسند مقاصد اٹھائیں ، ہیلری کلنٹن نے ایک نیا صحت منصوبہ بنایا ، لورا بش نے خواندگی کو فروغ دیا ، مشیل اوباما نے بچوں کے لئے بہتر غذا کے موضوع کو فروغ دیا۔ میلانیا ٹرمپ نے بھی بچوں کو متاثر کرنے والے امور پر توجہ دی۔ پچھلے چار سالوں میں اس نے امریکہ اور بیرون ملک دونوں مقامات پر اسکولوں کے متعدد دورے کیے ہیں۔ مشی گن میں ، وائکنگ ہڈل کلاس میں حصہ لینے سے لیکر ایکسل اکیڈمی ، اردن کی ملکہ کو واشنگٹن ڈی سی کے پہلے پبلک چارٹر اسکول میں لے جانے تک ، میلانیا نے بچوں سے اپنی وابستگی ظاہر کی۔
بین الاقوامی دوروں کے دوران ، وہ ریاض میں امریکن انٹرنیشنل اسکول کا دروہ کیا ہے اور جاپان کا دورہ کرنے کے دوران اکی آبے کے ساتھ کیوباشی سوشیجی ایلیمینٹری اسکول میں مقامی بچوں کے ساتھ خطاطی کا سبق لیا تھا۔ میلانیا ان امریکی بچوں کی مدد کے اقدام میں بھی شامل ہے جو انہوں نے مئی 2018 میں شروع کی تھی۔ بی بیسٹ کے نام سے بیداری مہم ، بچوں کی بہبود ، سائبر دھوکہ دہی اور بدسلوکی کے لئے وقف ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق اگرچہ صدر ٹرمپ نے انھیں اس اقدام میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش کی لیکن میلانیا اس مقصد پر بضد رہیں۔ فلوریڈا میں پام بیچ اٹلانٹک یونیورسٹی نے رواں ماہ انھیں 2020 کی امتیاز والی خاتون کا اعزاز سے نوازا لیکن میلانیا کو اپنے شوہر کے ٹویٹس اور اقدامات کے خلاف بات نہ کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ، جیسے متنازعہ علیحدگی کی پالیسی جہاں سرحد پر پھنسے ہوئے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر کے حراستی مراکز میں رکھا گیا تھا۔
تاہم امریکہ کے برعکس ، ہندوستانی صدور اور وزرائے اعظم کے چند واضح اور فعال شریک حیات رہے ہیں۔ صدور راجندر پرساد اور ایس رادھا کرشنن کی بیویاں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ شکر ہے ، وی وی گیری کی اہلیہ سرسوتی بائی نے مزید عوامی کردار اداکیا اور عابدہ فخر الدین علی احمد دو مرتبہ رکن پارلیمنٹ بنی ۔ پرنب مکھرجی کی اہلیہ سوورا زیادہ تر وقت سے بیمار تھیں اورگیانی زیل سنگھ نے اپنی بیٹی کو اپنا میزبان نامزدکیا تھا۔وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی اہلیہ للیتا ایک گھریلو خاتون تھیں اور زیادہ تر دیگر افراد نے بھی اس کی پیروی کی۔ تاہم سونیا گاندھی نے پارٹی کی صدر کی حیثیت سے اپنے کردار میں دلچسپی لی اور منموہن سنگھ کی اہلیہ گورشرن کور بھی زیادہ دکھائی دیتی تھیں