اسلام اورمسلم دشمن عناصراورمیڈیا کو موقع نہ دینے
مولانا محمد عاصم نشاط کا عوام کو مشورہ
حیدرآباد۔کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت ساری دنیا پریشان ہے جبکہ مسلمانوںمیں ایک بےچینی پائی جارہی کہ مساجد میں نماز باجماعت ادا کرنی چاہئے یا نہیں؟ کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ موت اور حیات اللہ کے ہاتھ ہے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے مساجد کو آباد کرنا چاہیئے اور اس مصیبت کے حالات میں زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کے گھر میں گزارنا چاہئے ۔دوسری جانب کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کےلئے ہندوستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں لاک ڈاؤن کیا جاچکاہے جس کے بعد مساجد میں ہجوم کا ہونا خطرے کی گھنٹی ہے۔
مسجد الحرام ، مسجد نبوی ﷺاورمسجد اقصیٰ کو بھی بند کردیا گیا ہے جس پر مسلمانوں کے ایک گوشہ سے تنقیدبھی کی جارہی ہے اور اب شہر حیدرآباد میں جمعہ کے تناظر میں علمائے اکرام نے مساجد میں جمع ہونے سے احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے سخت اقدامات بھی کئے جاچکے ہیں، تو عوام کے ذہنوں میں ‘‘مساجد کو آباد رکھنا یا گھر میں ہی نماز پڑھنا ’’ کی الجھن ہے ۔ اس الجھن کوشرعی نقطہ نظر اور حالات کے تناظر میں حل کرنے کےلئے مسجد سدرۃ المنتھیٰ سکندرآباد کے امام مولانا محمد عاصم نشاط نے عوام کی آسان اور مدلل طریقوں سے رہنمائی کی ہے۔ دارالعلوم حیدرآباد کے سابق استاذ نے میڈیا نمائندہ سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں دنیا میں کیا ہو رہا ہے اسے اللہ ہی بہتر جانتے ہیں وباؤں کا خالق بھی اللہ اورختم کرنے والا بھی اللہ ہی ہے اور اللہ جب چاہیں گے ان حالات کو تبدیل فرما دیں گے ان حالات میں اللہ ہی کی طرف رجوع ہونا اور مدد مانگناچاہیئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالات ہمارے لیے عبرت ناک ہیں اوراگر ان حالات موت آتی ہے تو انشاءاللہ شہادت ہے لیکن ان حالات میں احتیاطی تدابیر کا اختیارکرنا شریعت اورسائنس سے ثابت ہونے کے علاوہ حکومت اور محکموں کی جانب سے صادر کئے جانے والے احکامات میں شامل بھی ہیں۔احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں ہمیں قرآن حکیم اور احادیث سے دلائل بھی ملتے ہیں ۔سورۃ نمل میں جو واقعہ ہے جس میں اگرچہ کہ ایک چیونٹی کی فکر، صدا لگانا اوراحتیاط برتنے کا مشورہ ہے لیکن اللہ رب العزت نے اس چیونٹی کی تڑپ کو اس امت کے لئےمشعل راہ بنا کرہی پیش نہیں کیا بلکہ اس سورت کوسورۃ نمل (چیونٹی ) کے نام سے اپنی کتاب میں شامل فرمایا ہے ۔ چیونٹی کا یہ عمل صرف آج کے کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے ہر انسان کےلئے ایک رہنمائی ہے۔
اے چیونٹیو!! سلیمان علیہ السلام کے لشکر سے بچنے کی تدبیرکرواوربلوں میں داخل ہوجاؤ ۔ایسا نہ ہوکہ تم کو لشکر بےاحتیاطی میں روند نہ ڈالے۔۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابی بیعت کرنے آرہے تھے اور وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام بھیجا کہ‘‘ انا قد بایعناک فارجع۔ ہم نے تمہاری بیعت کر لی تم لوٹ جاؤ ’’۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جذام والے سے ایسے بھاگوجیسے کہ شیرسے بھاگتے ہو۔
مولانا نے کہا کہ اس کے علاوہ غزوہ خندق کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں تدبیر کے طور پر آپ ﷺ اور صحابہ اکرام نے خندق کھودی تھی ۔ اسکے علاوہ درجنوں اوربھی دلائل ہیں کہ حالات کے اعتبارسے احتیاط کو لازم پکڑولو ۔انہیں دلائل کی روشنی میں تمام مسلک کے علماء باربار عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ اجتماعات سے اجتناب کرو جس میں روزانہ پنجوقتہ نمازوں کےلئے مساجد میں جمع ہونا بھی شامل ہے ۔
مولانا نے عوام سے یہاں ‘‘ نماز اور جماعت کے فرض ہونے میں ’’ جو فرق ہے اسے بھی واضح کرنے کی بہتر کوشش کی ہے اور کہا کہ ہے کہ اس مسئلے کو بھی خوب سمجھیں ۔ہروقت (راحت اور مصیبت میں) صرف نماز فرض ہے جماعت فرض نہیں ۔حالات کے اعتبار سے جو تبدیلی ہوگی وہ صرف جماعت کے لئے ہوگی۔ مولانا نے یہ بھی بات کہی کہ ضرر (نقصان) سے خود کو اور دوسروں بچانا واجب ہے ، لہذا ان حالات میں شریعت اور ماہرین کے مطابق اجتماعیت اور خاص کر جمعہ کی نماز میں جمع ہونا بے حد نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ حنفی مسلک کی روشنی میں جمعہ کی نماز اگرصرف تین چار آدمی مل کربھی پڑھتے ہیں تو نماز جمعہ ادا ہوجائے گی باقی لوگ گھروں میں ظہر ادا کریں گے تو ان شاء اللہ ان کو بھی جماعت کا ثواب مل جائے گا، لیکن توکل کے نام پر یہ کہنا کہ ہم مسلمان ہیں ہم کو بیماری چھونہیں سکتی ہم کو وبا مارنہیں سکتی بالکل غلط گمان ہے ۔
صحابہ کا وباء سے شہید ہونا ثابت ہے۔مولانا نے طاعون عمواس کا حوالہ دیا ہے اور کہا کہ طاعون عمواس خلافت فاروقی میں شام کے قریہ عمواس میں پھیلنے والی ایک وبا تھی جس سے بہت سے صحابی شہید ہوئے۔ 18 ھ میں بہت ہی خطرناک اور مہلک طاعون کی وبا پھیلی جس سے کئی صحابہ شہید ہو ئے ۔ مؤرخین نے اسے دور فاروقی کا اہم واقعہ شمار کیا ہے۔ اس میں بہت اکابر صحابہ کی وفات ہوئی ان میں ابوعبیدہ بن جراح ،معاذ بن جبل ،یزید بن ابی سفیان، حرث بن ہشام ،سہل بن ہشام شامل تھے۔
تو کیا صحابہ میں توکل نہیں تھا؟؟ (نعوذ باللہ) توکل کے نام پر بے احتیاطی کرنا اور علماء کی ہدایت کو نہ مان کرمن مانی کرنا یہ ہمارے مسلم برادری، ہم وطنوں اور انسانیت کے لیے خطرہ کی بات ہے۔ مولانا نے کہا کہ اگر میں دوراندیشی کی بات کروں تو عین ممکن ہے کہ ہماری یہ بےاحتیاطی اس وبا کے پھیلنے کا بہت بڑا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو مستقبل میں،فرقہ پرست اورتنگ ذہن سیاسی لیڈروں اورمسلم دشمن میڈیا کو ایک اور بہانہ مل جائے گا اور وہ اس بے احتیاطی کوموضوع اورموقع بناکر ہماری برادری پرظلم ،جبر، زہر فشانی اور شاید سماجی بائیکاٹ جیسی چیزوں کو ہوا دےسکتا ہے ۔ اس وقت ہمارا آج کا بے احتیاط ہونا اورتوکل کا دم بھرنا مستقبل میں کوئی کام نہیں آئیگا۔ امام مسجد سدرۃالمنتھی ٰ نے عوام سے عمومی اورمسلمانوں سے خصوصی گذارش ہے کہ توکل کے نام پر نہ خود گمراہ ہوں اور نہ لوگوں کی صحت سے کھیلواڑ کریں۔