نئی دہلی: سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) نے بی جے پی حکومت کی طرف سے موجودہ قوانین میں تبدیلی کرنے کے ذمہ داری کے ساتھ پانچ ممبران کمیٹی تشکیل دئے جانے کی سخت مذمت کرتے ہوئے مودی حکومت کی طرف سے 4مئی 2020 کو تشکیل دی گئی 5رکنی اصلاحی کمیٹی جس کو تعزیرات ہند(آئی پی سی)، مجموعہ ضابطہ فوجداری(کریمنل پروسیجر کوڈ) اور قانون شہادت ہند(دی انڈین اویڈنس ایکٹ)میں تبدیلی کرنے کیلئے چھ ماہ میں رپورٹ طلب کی گئی ہے اس کمیٹی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کا ماننا ہے کہ کمیٹی میں زیادہ تر ممبر نیشنل لاء یونیورسٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں جس سے اس عمل میں وسیع اور منصفانہ نمائندگی نہیں ہوگی۔
اس ضمن میں ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اپنے اخباری بیان میں کہا ہے کہ ایس ڈی پی آئی بی جے پی حکومت کے مذموم کوششوں پر ملک کو متنبہ کرنا چاہتی ہے کہ بی جے پی حکومت تمام جمہوری اداروں کو کمزور اور نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کررہی۔ بی جے پی حکومت نے لاء کمیشن آف انڈیا کو اپنا تازہ ترین ہدف بنایا ہے۔ خود مودی سرکار کے ذریعہ تشکیل دئے گئے 22ویں لاء کمیشن کو نظر انداز کرکے حکومت نے غیر ضروری طور پر الگ سے پانچ ممبروں کی کمیٹی تشکیل دی ہے۔کمیٹی کے شرائط اور حوالہ جات شفاف نہیں ہیں اور ممبروں کے انتخاب کا طریقہ کار بھی مبہم ہے جہاں کسی بھی نامورماہر قانون یا ریٹائرڈ ججوں کو مذکورہ کمیٹی کا ممبر نہیں بنایا گیا ہے۔ کمیٹی میں حکمران جماعت کے نظریے کے پیروکار ہیں اور ایس سی، ایس ٹی، اقلیتوں، ٹریڈ یونینوں، کسانوں، غیر منظم سیکٹر کے ورکرس، ٹرانسجینڈر گروپس، خواتین، معذوروں کے حقوق گروپس وغیرہ سے نہ ہی کو ئی رکن شامل ہے اور نہ ہی خاص طور پر ان کی رائے طلب کی گئی ہے۔ بارکونسل، بار اسوسی ایشنس وغیرہ کا بھی یہی حال ہے۔
کمیٹی کے قواعد و ضوابط کو طئئے کرنے کیلئے کوئی شفاف مشاورت نہیں کی گئی ہے اور حکومت جلد بازی میں آئی پی سی، سی آر پی سی اور آئی ای اے میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ یہ قوانین دو صدیوں کے عرصہ میں طویل عمل کے بعد تیار ہوئے ہیں۔ حکومت تمام متعلقین سے مشورہ کئے بغیر اور لوگوں اور ان کے نمائندوں کیلئے موقع فراہم کئے بغیر جلد بازی میں قوانین کو تبدیل کرنا چاہتی ہے جو مجوزہ تبدیلیوں سے متاثر ہونگے۔ ایس ڈی پی آئی کا پختہ یقین ہے کہ تبدیلیوں کو محتاط اور وسیع پیمانے پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک عالمی وباء کے اثرمیں ہے جہاں عدالتیں بمشکل ہی کام کررہی ہیں، معمول سماعت معطل رکھی جارہی ہیں اور منتخب مقدمات میں مجازی سماعت جاری ہے۔ اس صورتحال میں کمیٹی کے تشکیل کا وقت اور 6ماہ کے اندر کمیٹی کے کام کو ختم کرنے کی جلد بازی کو نیک نیتی سے دیکھا نہیں جاسکتا ہے۔ دہلی میں ہونے والے حالیہ تشدد کے واقعات کے پیش نظر قوانین میں تبدیلی کا حکومت کا ارادہ مشکوک ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت حراست میں ملزم شخص کے اعتراف کو قانونی اور سزا کی واحد بنیاد قرار دیکر موجودہ قوانین کے عمومی اصولوں کو الٹا پھیرنا چاہتی ہے اور اسی لئے اتنی جلد بازی کی جارہی ہے۔ جلد بازی، شفافیت اور عوام سے مشورہ کئے بغیر قانون میں اصلاحات لانے سے عدالتی نظام کی بنیادی اخلاقیات کو نقصان پہنچے گا۔ فوجداری قوانین کو تبدیل کرنے کا عمل مکمل طو پر غیرجمہوری، غیر شفاف اور قائم شدہ طریقہ کار سے بالاتر ہے۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ قوانین کو ملک کے جمہوری نظام کے ساتھ زیادہ موافق ہونا چاہئے، لیکن وبائی بیماری کے اس دور میں جلد بازی اس شبہے کو جنم دیتی ہے کہ اس عمل کے پیچھے ایک درپردہ مقصد ہے اور اس کا مقصد ہندوستانی معاشرے کو درپش مسائل کو دیانتداری سے سمجھنے اور حل کرنے کے بجائے قوانین میں کچھ پہلے سے طے شدہ تبدیلیاں انجام دینا ہے۔ ایس ڈی پی آئی پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ فوجداری قوانین میں اصلاحات لانے کیلئے حکومت کی طرف سے 4مئی 2020کو نوٹیفائی کی گئی کمیٹی کو ختم کیا جائے اور موجودہ عمل کو فوری طور معطل کردیا جائے۔
جب تک عدالتی نظام معمول کا کام شروع نہیں کرتا ہے اور عوامی جلسوں کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اس وقت تک وبائی مرض کے دوران قوانین میں کوئی اہم تبدیلیاں نہیں کی جانی چاہئے۔ ایس ڈی پی آئی یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ لاء کمشین آف انڈیا کو طریقہ کار اور ملک کے رائج قانون کے مطابق فوجداری قوانین میں اصلاحات کی ذمہ داری سونپی جائے، اور اس عمل کے دوران معاشرے کے مختلف طبقات خصوصا پسماندہ اور غیر مراعات یافتہ گروپوں کو مناسب نمائندگی فراہم کی جائے۔