قسط۔2: شادی کے بعد کی کونسلنگ
ٓکیا آپ جانتے ہیں کہ ایک عمل ایسا بھی ہے جس کا درجہ نماز، روزہ اور دوسرے کئی اہم فرائض سے بھی زیادہ اہم بتایا گیا ہے؟ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ کسی کے درمیان اختلافات کو دور کرنا اور صلح کروانے کا درجہ کئی فرائض پر بھاری ہے۔ کیونکہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اس سے ایمان مونڈھ جاتا ہے۔ بالخصوص میاں بیوی کے درمیان اگر اختلافات ہوں تو ان میں صلح کروانا سب سے بڑی نیکی ہے کہ کیونکہ حدیثوں میں ہی آیا ہے کہ ابلیس کے تمام پسندیدہ کاموں میں سب سے پہلے مقام پر کسی میاں بیوی کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کروانا ہے۔ اسی لئے شائد نبی ﷺ نے وارننگ دی کہ وہ شخص بدترین مجرم ہے جس کے کسی ایک ریمارک سے بھی کسی میاں بیوی کے درمیان رنجش پیدا ہوجائے۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی کونسلنگ کے واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو ایسا لگے گا کہ کونسلنگ آپ ﷺ کے فرائضِ نبوّت میں سے ایک تھا۔ آپ ﷺ کے پاس بیویاں اپنے شوہروں کی، اور شوہر اپنی بیویوں کی شکایات لے کر آتے، اور آپ ﷺ ہر وقت ان کی کونسلنگ فرماتے۔ جانے کیوں سیرت کا اتنا اہم پیغام ہمارے مدرسوں سے نکال دیا گیا۔ امریکہ اور یورپ نے کونسلنگ کو اپنا لیا، اور آج ان کے پاس اِس سبجیکٹ کی اتنی اہمیت ہے کہ جس طرح معمولی بخار زکام کے لئے بھی لوگ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، اسی طرح کسی سے تعلقات بھی خراب ہونے لگیں تو پہلے وہ لوگ کونسلر کے پاس جاتے ہیں۔
ہم نے قسط۔1 میں شادی سے پہلے کونسلنگ کرنے کی اہمیت اور طریقہ بیان کیا، آج ہم شادی کے بعد کی کونسلنگ کرنے کے بار ے میں بتائیں گے۔ اس کے لئے نہ ڈگری درکار ہے اور نہ ڈپلوما۔ اس کے لئے کامن سینس، بولنے کی صلاحیت اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کی ازدواجی زندگیوں کا مطالعہ درکار ہے۔ لیکن ایک اہم شرط یہ ہے کہ کونسلر کا سینہ ہر میاں بیوی کے رازوں کا قبرستان بن جائے، یعنی وہ کبھی کسی سے حتیٰ کہ اپنی بیوی سے بھی کسی کے بارے میں کچھ نہ بتائے۔ ایسا کونسلر جو کسی کی زندگی جوڑنے میں کامیاب تو ہوجاتا ہے لیکن اپنی جیت کی خوشی فوری بیوی یا کسی اور سے شیئر کرتے ہوئے، لوگوں کی باتیں بیان کردیتا ہے، وہ دوبارہ لوگوں کی زندگی میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے۔ کونسلنگ کی ہر خاندان میں ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ 60+ عمر کے ہوتے ہیں، وہ اس کام کے لئے بے انتہا آئیڈیل ہوتے ہیں، بالخصوص خواتین کو اگر ہم اس کے لئے تربیت دیں تو وہ بہت شاندار کام کرسکتی ہیں۔ پھر اس کے بعد لوگوں کو نہ پولیس یا کورٹ جانے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ خاندانوں میں ٹنشن پیدا ہوتے ہیں، ورنہ ایک میاں بیوی کا جھگڑا کتنے لوگوں کا ذہنی سکون چھین لیتا ہے، ہر شخص اس سے واقف ہے۔سوشیوریفارمس سوسائٹی ان افراد کو تربیت فراہم کرسکتی ہے جو کونسلنگ سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ہم نے قسط۔1 میں شادی سے پہلے کونسلنگ کرنے کی اہمیت اور طریقہ بیان کیا، آج ہم شادی کے بعد کی کونسلنگ کرنے کے بار ے میں بتائیں گے۔ اس کے لئے نہ ڈگری درکار ہے اور نہ ڈپلوما۔ اس کے لئے کامن سینس، بولنے کی صلاحیت اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کی ازدواجی زندگیوں کا مطالعہ درکار ہے۔ لیکن ایک اہم شرط یہ ہے کہ کونسلر کا سینہ ہر میاں بیوی کے رازوں کا قبرستان بن جائے، یعنی وہ کبھی کسی سے حتیٰ کہ اپنی بیوی سے بھی کسی کے بارے میں کچھ نہ بتائے۔ ایسا کونسلر جو کسی کی زندگی جوڑنے میں کامیاب تو ہوجاتا ہے لیکن اپنی جیت کی خوشی فوری بیوی یا کسی اور سے شیئر کرتے ہوئے، لوگوں کی باتیں بیان کردیتا ہے، وہ دوبارہ لوگوں کی زندگی میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے۔ کونسلنگ کی ہر خاندان میں ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ 60+ عمر کے ہوتے ہیں، وہ اس کام کے لئے بے انتہا آئیڈیل ہوتے ہیں، بالخصوص خواتین کو اگر ہم اس کے لئے تربیت دیں تو وہ بہت شاندار کام کرسکتی ہیں۔ پھر اس کے بعد لوگوں کو نہ پولیس یا کورٹ جانے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ خاندانوں میں ٹنشن پیدا ہوتے ہیں، ورنہ ایک میاں بیوی کا جھگڑا کتنے لوگوں کا ذہنی سکون چھین لیتا ہے، ہر شخص اس سے واقف ہے۔سوشیوریفارمس سوسائٹی ان افراد کو تربیت فراہم کرسکتی ہے جو کونسلنگ سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
کونسلر کی ذمہ داریاں:
۱۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان بات چیت کا پُل بنائے رکھنا۔ کیونکہ اختلاف جب تک اختلاف ہے، ختم کرنا آسان ہے۔ جب اختلافات ضِد بن جائیں تو سمجھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ انا Ego کی دیوار اتنی اونچی ہوجاتی ہے کہ سب اِس سے سر ٹکرا ٹکرا کر زخمی ہوتے رہتے ہیں۔ بات چیت بند ہوجاتی ہے، لوگ اب ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کی قسم کھالیتے ہیں۔انہیں اپنے حق پر ہونے کا انہیں اتنا یقین ہوجاتا ہے کہ اب کچھ سننا ہی نہیں چاہتے۔ لوگوں کے فیملی ڈاکٹر یا فیملی وکیل بلکہ امیر خاندانوں میں فیملی CA بھی لازمی ہوتے ہیں، لیکن فیملی کونسلر ہرگز نہیں ہوتے، اسی لئے اکثر جھگڑوں کو لوگ پولیس، وکیل، پہلوان، مولوی صاحب یا قاضی صاحب یا پھر عاملوں کے پاس لے جانے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور ایک بار جو ان لوگوں کی دہلیز چڑھ جائے، وہاں سے سب کچھ لٹا کر ہی واپس لوٹتا ہے، اور نتیجے میں رشتے بنتے نہیں، بلکہ ٹوٹ کر مزید نفرتیں، زندگی بھر کی کوفت اور یادوں کے زخم پر ختم ہوتے ہیں۔یہ واقعات ہر امیر غریب، دیندار یا کم دیندار، کسی بھی مسلک یا جماعت کے ذمہ داروں کے بھی گھروں میں آئے دن بڑھتے جارہے ہیں۔ اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی کونسلر سے ضرور رابطہ رکھیں۔ کونسلر کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان Communication کو ختم ہونے نہ دے۔
دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ دونوں کے دل و دماغ میں اپنے رویّہ میں تبدیلی لانے کی خواہش پیدا کرنا۔یہ تو طئے ہے کہ جب تک میاں بیوی اور دونوں کے لوگ جب تک اپنے اپنے رویّہ میں تبدیلی پیدا نہیں کرینگے، جھگڑے ختم نہیں ہوسکتے۔
تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ صحیح ڈائگنائز کریں کہ اصل بیماری کیا ہے۔ مارپیٹ، منہ پھلالینا، زبان چلادینا وغیرہ وغیرہ تو کسی اور بیماری کی علامتیں Syptoms ہوتے ہیں جیسے ایک دوسرے پر شک، شوہروں کا فضول دوستوں میں وقت برباد کرنا، عورتوں کا فلم، ٹی وی، موبائیل یا شاپنگ میں وقت برباد کرنا، شوہروں کا اپنے کام کو زیادہ اہم سمجھنا، حالانکہ ایک ماں کا بچّے کو پالنا اتنا ہی اہم ہیں جتنی اہم شوہر کی نوکری ہے لیکن اکثر شوہر اپنے کام کو اتنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور بیوی کو وقت ہی نہیں دیتے، ان کو عورتوں کی باتیں فالتو نظر آتی ہیں، بعض میاں اور بیوی کو بہت جھوٹ بولنے کی یابہت زیادہ چغلیاں کرنے کی عادت ہوتی ہے، بعض میاں یا بیوی کی کمزوری یہ ہوتی ہے اگر کسی کی غلطی سے چمچہ یا پلیٹ بھی گِر جائے تو بحث شروع کردیتے ہیں کہ کیا ہوا، کسی کی غلطی سے ہوا، وغیرہ۔ جب تک وہ ایک دوسرے پر الزام نہ دے لیں اور ثابت کرنے کے لئے بحث حجّت اور تکرار نہ کرلیں۔ کسی گھر میں ہر وقت ایک دوسرے کو دوسروں کی مثال دے کر چھوٹا کیا جاتا ہے۔ کہیں شوہروں کی بری عادتوں جیسے شراب، چرس، سگریٹ وغیرہ پر مسلسل جھگڑے ہیں، اس کے علاوہ ایک اور بیماری ہوتی ہے جسے اضطراب یا Impulsivity کہتے ہیں۔ جیسے عورت کا کنفیوزڈ یا ڈبل مائنڈیڈ ہونا، غصہ کے وقت مرد خاموش رہنا چاہتا ہے اورعورت بحث کرنا چاہتی ہے عورت ایک مکمل مرد چاہتی ہے جس پر دوسروں کا قبضہ یا اختیار نہ ہو، اسی طرح ماں بھی ایک مکمل بیٹا چاہتی ہے، بہنیں مکمل بھائی چاہتی ہیں جس پر بہو کا قبضہ نہ ہو۔ ان تمام کی فطرت کی وجہ سے مرد بے چارہ سینڈوچ بن کر رہ جاتا ہے، مرد کے مزاج میں آرڈر دینا ہوتا ہے، دونوں تنقید برداشت نہیں کرسکتے۔ مر دکھانے کے دستر یا عورت کے میک اپ کا انتظار برداشت نہیں کرتا۔ ان تمام مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جھگڑے میں محض سمجھانے منانے سے کام نہیں چلتا بلکہ یہ ذہنی امراض Mental Diseases ہوتے ہیں۔ کونسلر کی ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کو کسی اسپیشلسٹ سے رجوع کروائے جیسے، سیکس کونسلنگ، ڈپریشن تھراپی، اسٹریس ٹریٹمنٹ، اینگر مینجمنٹ، Behavoioral Therapy یا پھر Mental Counseling۔
۱۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان بات چیت کا پُل بنائے رکھنا۔ کیونکہ اختلاف جب تک اختلاف ہے، ختم کرنا آسان ہے۔ جب اختلافات ضِد بن جائیں تو سمجھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ انا Ego کی دیوار اتنی اونچی ہوجاتی ہے کہ سب اِس سے سر ٹکرا ٹکرا کر زخمی ہوتے رہتے ہیں۔ بات چیت بند ہوجاتی ہے، لوگ اب ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کی قسم کھالیتے ہیں۔انہیں اپنے حق پر ہونے کا انہیں اتنا یقین ہوجاتا ہے کہ اب کچھ سننا ہی نہیں چاہتے۔ لوگوں کے فیملی ڈاکٹر یا فیملی وکیل بلکہ امیر خاندانوں میں فیملی CA بھی لازمی ہوتے ہیں، لیکن فیملی کونسلر ہرگز نہیں ہوتے، اسی لئے اکثر جھگڑوں کو لوگ پولیس، وکیل، پہلوان، مولوی صاحب یا قاضی صاحب یا پھر عاملوں کے پاس لے جانے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور ایک بار جو ان لوگوں کی دہلیز چڑھ جائے، وہاں سے سب کچھ لٹا کر ہی واپس لوٹتا ہے، اور نتیجے میں رشتے بنتے نہیں، بلکہ ٹوٹ کر مزید نفرتیں، زندگی بھر کی کوفت اور یادوں کے زخم پر ختم ہوتے ہیں۔یہ واقعات ہر امیر غریب، دیندار یا کم دیندار، کسی بھی مسلک یا جماعت کے ذمہ داروں کے بھی گھروں میں آئے دن بڑھتے جارہے ہیں۔ اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی کونسلر سے ضرور رابطہ رکھیں۔ کونسلر کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان Communication کو ختم ہونے نہ دے۔
دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ دونوں کے دل و دماغ میں اپنے رویّہ میں تبدیلی لانے کی خواہش پیدا کرنا۔یہ تو طئے ہے کہ جب تک میاں بیوی اور دونوں کے لوگ جب تک اپنے اپنے رویّہ میں تبدیلی پیدا نہیں کرینگے، جھگڑے ختم نہیں ہوسکتے۔
تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ صحیح ڈائگنائز کریں کہ اصل بیماری کیا ہے۔ مارپیٹ، منہ پھلالینا، زبان چلادینا وغیرہ وغیرہ تو کسی اور بیماری کی علامتیں Syptoms ہوتے ہیں جیسے ایک دوسرے پر شک، شوہروں کا فضول دوستوں میں وقت برباد کرنا، عورتوں کا فلم، ٹی وی، موبائیل یا شاپنگ میں وقت برباد کرنا، شوہروں کا اپنے کام کو زیادہ اہم سمجھنا، حالانکہ ایک ماں کا بچّے کو پالنا اتنا ہی اہم ہیں جتنی اہم شوہر کی نوکری ہے لیکن اکثر شوہر اپنے کام کو اتنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور بیوی کو وقت ہی نہیں دیتے، ان کو عورتوں کی باتیں فالتو نظر آتی ہیں، بعض میاں اور بیوی کو بہت جھوٹ بولنے کی یابہت زیادہ چغلیاں کرنے کی عادت ہوتی ہے، بعض میاں یا بیوی کی کمزوری یہ ہوتی ہے اگر کسی کی غلطی سے چمچہ یا پلیٹ بھی گِر جائے تو بحث شروع کردیتے ہیں کہ کیا ہوا، کسی کی غلطی سے ہوا، وغیرہ۔ جب تک وہ ایک دوسرے پر الزام نہ دے لیں اور ثابت کرنے کے لئے بحث حجّت اور تکرار نہ کرلیں۔ کسی گھر میں ہر وقت ایک دوسرے کو دوسروں کی مثال دے کر چھوٹا کیا جاتا ہے۔ کہیں شوہروں کی بری عادتوں جیسے شراب، چرس، سگریٹ وغیرہ پر مسلسل جھگڑے ہیں، اس کے علاوہ ایک اور بیماری ہوتی ہے جسے اضطراب یا Impulsivity کہتے ہیں۔ جیسے عورت کا کنفیوزڈ یا ڈبل مائنڈیڈ ہونا، غصہ کے وقت مرد خاموش رہنا چاہتا ہے اورعورت بحث کرنا چاہتی ہے عورت ایک مکمل مرد چاہتی ہے جس پر دوسروں کا قبضہ یا اختیار نہ ہو، اسی طرح ماں بھی ایک مکمل بیٹا چاہتی ہے، بہنیں مکمل بھائی چاہتی ہیں جس پر بہو کا قبضہ نہ ہو۔ ان تمام کی فطرت کی وجہ سے مرد بے چارہ سینڈوچ بن کر رہ جاتا ہے، مرد کے مزاج میں آرڈر دینا ہوتا ہے، دونوں تنقید برداشت نہیں کرسکتے۔ مر دکھانے کے دستر یا عورت کے میک اپ کا انتظار برداشت نہیں کرتا۔ ان تمام مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جھگڑے میں محض سمجھانے منانے سے کام نہیں چلتا بلکہ یہ ذہنی امراض Mental Diseases ہوتے ہیں۔ کونسلر کی ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کو کسی اسپیشلسٹ سے رجوع کروائے جیسے، سیکس کونسلنگ، ڈپریشن تھراپی، اسٹریس ٹریٹمنٹ، اینگر مینجمنٹ، Behavoioral Therapy یا پھر Mental Counseling۔
میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟
۱۔ سسرالیوں کی دخل اندازی: جوائنٹ فیملی میں جھگڑے بہت زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت نیوکلیر فیملی کے۔ اسلام نے جوائنٹ فیملی کو ناپسند کیا ہے۔ یہاں تک شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر بیوی الگ سے چہار دیواری چاہتی ہے تو مرد اس کا انتظام کرے۔ اگر ابّاجان نے کئی بچے پیدا کئے ہیں، تو وہ ان کی پرورش کے ذمہ دار ہیں بیٹوں اور بہوؤں پر اس کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی۔ کہیں لڑکا بیوی کی شکایتیں اپنی امی جان سے اور لڑکی اپنی امی جان سے سنانے لگتے ہیں، پھر دونوں امی جانیں مل کر لڑکے لڑکی کی زندگی میں دخل اندازی شروع کردیتی ہیں۔۔ کہیں نندیں، بھاوج کو ملی آزادی سے جلس کا شکار ہوجاتی ہیں۔کہیں سالیاں مشکلات کھڑی کردیتی ہیں۔ کئی طلاق کے جھگڑے تو ایسے بھی ہوئے ہیں کہ کہیں لڑکے کے والدین نے غصے میں بیٹے کو جذباتی بلیک میل کیا اور طلاق کہلوادی، اور کہیں لڑکی کے ماں باپ نے اپنی انا کی وجہ سے لڑکی کو گھر بٹھوالیا۔ لڑکیوں کی ساسوں کے ساتھ اگر ظلم ہوا تھا تو اب وہ بدلہ لیتی ہیں تو اپنی بہوؤں سے۔ ہماری سوسائٹی کی سوچ بہت گھٹیا ہے جیسے ”ہمارا بیٹا بہت اچھا ہے، اس کی بیوی کمینی ہے“۔ ”ہمارا داماد بہت اچھا ہے لیکن اس کی ماں اور بہنیں بہت غلط ہیں“۔ ”ہمارے لڑکے کی ساری کمائی اس کے سسرال والے لوٹ رہےہیں“۔ بیٹی بیمار ہوجائے اور داماد اس کا علاج کروائے تو بہت ہی شریف داماد ہے۔ اگر بہو بیمار ہوجائے اور بیٹا اس کی دیکھ بھال کرے تو بہو ایکٹنگ کررہی ہے اور شوہر کو غلام بناکر رکھی ہے۔ کونسلر یہ سمجھائے کہ یہ سارے مسائل جوائنٹ فیملی کی وجہ سے ہوتے ہیں، جہاں ہر فرد اپنی ذمہ داری کم نبھاتا ہے اور دوسروں پر الزامات زیادہ لگاتا ہے۔
۱۔ سسرالیوں کی دخل اندازی: جوائنٹ فیملی میں جھگڑے بہت زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت نیوکلیر فیملی کے۔ اسلام نے جوائنٹ فیملی کو ناپسند کیا ہے۔ یہاں تک شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر بیوی الگ سے چہار دیواری چاہتی ہے تو مرد اس کا انتظام کرے۔ اگر ابّاجان نے کئی بچے پیدا کئے ہیں، تو وہ ان کی پرورش کے ذمہ دار ہیں بیٹوں اور بہوؤں پر اس کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی۔ کہیں لڑکا بیوی کی شکایتیں اپنی امی جان سے اور لڑکی اپنی امی جان سے سنانے لگتے ہیں، پھر دونوں امی جانیں مل کر لڑکے لڑکی کی زندگی میں دخل اندازی شروع کردیتی ہیں۔۔ کہیں نندیں، بھاوج کو ملی آزادی سے جلس کا شکار ہوجاتی ہیں۔کہیں سالیاں مشکلات کھڑی کردیتی ہیں۔ کئی طلاق کے جھگڑے تو ایسے بھی ہوئے ہیں کہ کہیں لڑکے کے والدین نے غصے میں بیٹے کو جذباتی بلیک میل کیا اور طلاق کہلوادی، اور کہیں لڑکی کے ماں باپ نے اپنی انا کی وجہ سے لڑکی کو گھر بٹھوالیا۔ لڑکیوں کی ساسوں کے ساتھ اگر ظلم ہوا تھا تو اب وہ بدلہ لیتی ہیں تو اپنی بہوؤں سے۔ ہماری سوسائٹی کی سوچ بہت گھٹیا ہے جیسے ”ہمارا بیٹا بہت اچھا ہے، اس کی بیوی کمینی ہے“۔ ”ہمارا داماد بہت اچھا ہے لیکن اس کی ماں اور بہنیں بہت غلط ہیں“۔ ”ہمارے لڑکے کی ساری کمائی اس کے سسرال والے لوٹ رہےہیں“۔ بیٹی بیمار ہوجائے اور داماد اس کا علاج کروائے تو بہت ہی شریف داماد ہے۔ اگر بہو بیمار ہوجائے اور بیٹا اس کی دیکھ بھال کرے تو بہو ایکٹنگ کررہی ہے اور شوہر کو غلام بناکر رکھی ہے۔ کونسلر یہ سمجھائے کہ یہ سارے مسائل جوائنٹ فیملی کی وجہ سے ہوتے ہیں، جہاں ہر فرد اپنی ذمہ داری کم نبھاتا ہے اور دوسروں پر الزامات زیادہ لگاتا ہے۔
۲۔ جہیز: میاں بیوی کے جھگڑوں میں لڑکی والوں نے کتنا خرچ کیا، اس پر بہت زیادہ فساد ہوتے ہیں۔ لڑکی جس گھر میں بیاہ کر جاتی ہے اگر وہاں اس کی جٹھانی کی شادی چالیس لاکھ کی ہوئی تھی اور نند کی شادی پچیس لاکھ کی ہوئی تھی لیکن اس لڑکی کی شادی صرف پانچ دس لاکھ کی تھی تو اس لڑکی کے ساتھ نچلا برتاو شروع ہوجاتا ہے۔ دوسری مصیبت یہ ہے کہ لڑکیوں کو ان کے برابر کے لڑکے اس لئے نہیں ملتے کہ ان کے برابر والے لڑکوں کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لڑکی کا باپ جس لڑکے کو Afford کرسکتا ہے، بے چاری کو اس آدمی کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ جہیز کی وجہ سے لڑکوں اور لڑکیوں میں Matching یا کفو باقی نہیں رہتا۔ لڑکی کبھی نہ اس گھر سے محبت کرسکتی ہے اور نہ اس گھر کے بڑوں کو عزت دے سکتی ہے جس گھر کی وجہ سے لڑکی کے والد کو اپنا گھر فروخت کرنا پڑے، یا سود پر قرض لینا پڑے۔ اگر لڑکی والوں کو جہیز، کھانے، ہُنڈے اور منگنی پر خرچ کرنا پڑے تو یہ قرآن کے حکم کے خلاف ہے۔ ہمارے ہاں لڑکے والے شادی چاہتے ہیں ہندو رسم و رواج پر، لیکن طلاق چاہتے ہیں اسلام کے طریقے پر، یہ منافقت ہے۔ اگر کوئی لڑکی کا باپ لاکھوں خرچ کررہا ہے تو وہ اس لئے نہیں کررہا ہے کہ اس کی بیٹی جاکر ساس سسر، نندوں اور دیوروں کی نوکرانی بن کر رہے گی۔ جہیز لینے والوں کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ مال لانے والی کی عزت بھی کریں اور خدمت بھی۔کیونکہ اکثر گھروں میں خود خریدنے کی استطاعت نہیں ہوتی، اب بہو کے لائے ہوئے فرنیچر، فریج، ٹی وی، کار، اور گھر پر سارے عیش کرتے ہیں، اور اسی کو برا کہتے ہیں۔ کئی لوگ پہلے چاند پری یعنی V. V. Fair لڑکی ڈھونڈھتے ہیں۔ بہت تعلیم یافتہ ہو، بڑے خاندان کی ہو وغیرہ۔ لیکن جب یہ چیزیں نہیں ہوتیں لیکن ان کی جگہ پانچ دس لاکھ زیادہ کا جہیز ہو تو پھر اسی پر خوشی خوشی راضی ہوجاتے ہیں۔ ساس اور نندیں اپنی مرضی سے ہی یہ سب طئے کرتی ہیں، لیکن شادی کے بعد اسی لڑکی
میں خامیاں تلاش کرنے لگتی ہیں۔ کونسلر یہ سمجھائے کہ کہاں جہیز کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
۳۔ سابقہ عاشقیاں: بے شمار جھگڑے لڑکے یا لڑکی کے سابقہ Affairs کی وجہ سے ہوتے ہیں، اگر کسی ایک کا بھی مزاج عاشقانہ ہو تو یہ لت شادی کے بعد بھی نہیں چھوٹتی۔ موبائیل فونوں نے اس لعنت کو اب اتنا عام کردیا ہے کہ کوئی لڑکا یا کوئی لڑکی اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جس طرح امریکہ اور یورپ میں کوئی بھی ڈیٹنگ یا شادی سے پہلے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ پہلے آپ کے کون کون یار تھے، کس سے کس حد تک تعلق تھا۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ان کے کلچر میں جوان ہونے کے بعد ان تمام چیزوں کی ان کا کلچر خود خوشی سے اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح اب ہمارے ہاں بھی وہ ماحول بن چکا ہے کہ ہرلڑکی اور ہر لڑکا کسی نہ کسی کو ضرور پسند کرتے ہیں، ہائے ہیلو یا چیاٹنگ کی حد تک، یا اس سے آگے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ہاں ایسے گھرانے ضرور ہیں جہاں کے لڑکے لڑکیاں انتہائی پاک باز ہیں، لیکن ان کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں لڑکے سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک نہیں کئی لڑکیوں سے عاشقی اور عیاشی کا حق ہے لیکن انہیں کوئی ایسی پاک حور ملے جس پر کبھی کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑی ہو۔ لڑکیاں بھی یہی چاہتی ہیں کہ ان کا ماضی جیسا بھی رہا ہو، لیکن انہیں ایسا مرد ملے جو اسمارٹ بھی ہو، خرچ کرنے والا بھی ہو اور فرشتہ ہو۔ یہ ناممکن ہے۔ اگرچہ کہ کئی جھگڑوں میں لڑکے یا لڑکی کو صرف شک رہتا ہے کہ ان کا شریکِ حیات کسی اور کے ساتھ Involve ہے لیکن کئی جھگڑوں میں یہ سچ بھی ہوتا ہے۔ جہاں لڑکا یا لڑکی اپنے فون یا ای میل ایک دوسرے سے چھپاتے ہیں، وہاں یہ شک اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ کونسلر کی ایسے واقعات میں بہت زیادہ ذمہ داری ہے کہ محض سمجھا منا کر بات ٹالنے کی کوشش نہ کرے، حقیقت معلوم کرے۔ اور اصل واقعات کو جاننے کے بعد ہی انہیں سمجھائے کہ جو ماضی تھا اسے بھول کر ایک نئی زندگی شروع کریں۔ اگر رازوں پر پردہ پڑا رہا تو یہ راز ایک کینسر کی طرح بار بار دوبارہ لوٹ کر آئے گا۔
۴۔ ماں باپ کا اثر: ہر لڑکے اور لڑکی کے رویّہ میں اپنے اپنے ماں باپ کا بیک گراؤنڈ بہت گہرے اثرات چھوڑ تا ہے۔ جس گھر میں بیوی نے اپنی شادی کے فوری بعد اپنے شوہر کو اپنے ماں باپ سے الگ کروالیا، اس گھر کی پلی بڑھی لڑکی کا شوہر کے ساتھ رویّہ مختلف ہوتا ہے اور وہ لڑکی جس کی ماں نے ایک سسرال میں رہ کر زندگی گزاری، اس کارویّہ مختلف ہوتا ہے۔ اگر ماں باپ میں ہر وقت لڑائیاں ہوتی رہی ہیں تو ان کے بچوں کا اپنی بیوی یا شوہر کے ساتھ رویّہ مختلف ہوتا ہے، اور اس گھر کے بچوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے جس گھر میں ماں باپ بہت پیار سے رہتے تھے۔ کونسلر کسی بھی جھگڑے کو سلجھانے سے پہلے مرد اور عورت دونوں کے ماں باپ کا بیک گراؤنڈ ضرور جان لے۔
بہتر رومانٹک شادی شدہ زندگی گزارنے کے طریقے: Tips
۱۔ ہر جھگڑا کمرے کے اندر ہو باہر نہ آئے۔ایک دوسرے سے جو بھی شکایت ہو، وہ کمرے کے اندر حل ہونی چاہئے۔ جب لڑکایا لڑکی یہ باتیں اپنی امّی جانوں کے سامنے لاتے ہیں تو پھر ان کے جھگڑے کبھی حل نہیں ہوتے۔ اگر وہ بھولنے کی کوشش بھی کریں تو لوگ یاد دلادیتے ہیں۔
۲۔ گھروں میں دینی تعلیم: کم سے کم دن میں ایک مرتبہ کسی نماز کے بعد یا دسترخوان پر کچھ دیر قرآن اور حدیث کا کچھ نہ کچھ پڑھنے اور سننے کا سلسلہ ہو تو رفتہ رفتہ یہ گھر کے ہر فرد کے کردار کی تعمیر میں بہت مددگار ہوتا ہے۔
۳۔ عورت کو کمتر اور نوکرانی سمجھنے کی صدیوں پرانی روِش کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ آج کی عورت مرد سے کم نہیں بلکہ ذہانت میں، تعلیم میں، صلاحیتوں میں اور کمائی میں مرد سے زیادہ کامیاب رہتی ہے۔ ہمارے پرانے لٹریچر میں لکھا گیا کہ عورت ناقص العقل، ساقط الاعتبار ہوتی ہے، یہ عورت کا انتہائی غلط امیج ہے جو ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے، اس میں برہمنانہ سوچ پوشیدہ ہے۔ عورت کے ساتھ ایسا سلوک کیجئے جیسا سلوک آپ چاہیں گے کہ کوئی اور مرد آپ کی بیٹی یا بہن کے ساتھ کرے۔
۴۔ احسان مت جتایئے: اگر آپ نے بغیر جہیز کے شادی کی ہے، یا کسی غریب گھرانے سے کی ہے، تو آپ یہ احسان جتا کر اس کی
عزتِ نفس کو ٹھیس مت پہنچایئے۔ شادی آپ نے کی تھی، اس نے زبردستی نہیں کی تھی۔ احسان جتانا ایک کم ظرفی ہے، اگر عورت پر اس طرح کا احسان جتا کر اس کو ذلیل کرینگے تو وہ بھی کم ظرفی کا جواب کم ظرفی ہی سے دے گی۔
اس کے علاوہ ایسی کئی باتیں ہیں جو کونسلنگ کے سلسلے میں آپ کی مددگار ہوسکتی ہیں۔ سوشیوریفارمس سوسائٹی ان لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتی ہے جو کونسلنگ میں اپنا کیرئیر بنانا چاہتے ہیں۔ دینی طورپر، اخلاقی اور سماجی طور پر یہ کام بہت عظیم کام ہے۔
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
9642571721
- Advertisement -
- Advertisement -
Disclaimer: The views, thoughts & opinions expressed within this article are the personal opinions of the author. and the same does not reflect the views of Y THIS NEWS and Y THIS NEWS does not assume any responsibility or liability for the same.