Monday, April 21, 2025
Homesliderبرتھ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے حصول میں رشوت خوری اور بدعنوانیاں عروج...

برتھ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے حصول میں رشوت خوری اور بدعنوانیاں عروج پر

- Advertisement -
- Advertisement -

حیدرآباد ۔ان دنوں جڑواں شہروں  حیدرآباد اور سکندرآباد میں برتھ اور   ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا حصول ایک بہت بڑا معاملہ  بن چکا ہے ، کیونکہ  آپ جب تک عنوان اعلی عہدیداروں  کی مدد سے معاونت کرنے والے معاونین  کے جیب گرم نہیں کرتے ۔ اگر آپ 3،000 روپے تک ادا کرنے کو تیار ہیں تو آپ بغیر وقت گنوائے  برتھ  اور ڈیتھ کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ بصورت دیگر  وہ اس میں شامل کام کی آؤٹ سورسنگ کی وجہ سے تاخیر کا حوالہ دیتے ہیں اور آپ کو اپنے ارد گردچکر لگانے پر مجبور کرتے ہیں  ۔ برتھ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے معاملے میں بڑھتی ہوئی بے ضابطگیاں اور بہت سے خاندانوں کی جانب سے  غیرقانونی طور پر رقم ادا کرنے میں ناپسندیدگی کے پیش نظر  متعلقہ حکام نے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ سے متعلقہ فائلوں کو کلیئر نہیں کیا ہے۔ بدعنوان عہدیداروں نے صحت کے معاونین کو معاملات طے کرنے درمیانی رابطے  کے طور پر استعمال کیا ہے۔ عام حالات میں  شہریوں کو درخواست جمع کروانے کے 15 دن کے اندر پیدائش / موت کی سند حاصل ہوجاتی ہے  تاہم ، بدعنوان عناصر نے پیدائش اور موت کے سند کے حصول کے مسئلے کو آمدنی کا ایک بہترین  ذریعہ بنا  لیا ہے۔

نیلوفر اسپتال میں جہاں  ایک سرکاری سہولت موجود ہے لیکن یہاں   پیدائش  اور موت سے متعلق 5،000 سے زیادہ درخواستوں پر چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باجود کوئی پیش  رفت نہیں ہوئی ہے ۔ کچھ شہری  سرکاری دفاتر میں گھومنے پھرنے کی ضرورت سے پریشان ہیں  اور وہ اس مسائل کے  بجائے وہ اپنے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے جیبوں کو گرم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ایسے شہری اپنے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے ایک ہزار سے لے کر تین ہزار روپے تک کی رقم ادا کرتے رہے ہیں۔ چارمینار دائرے میں 6،000 سے زیادہ درخواستیں چھ مہینوں سے زیر التوا ہیں۔ اس کے برعکس  اگر معاملات صحیح چینل کے ذریعہ آتے ہیں تو چیزیں تیزی کے ساتھ ساتھ دور دراز تک منتقل ہوتی ہیں۔ کاروان سرکل کے ایک اعلی عہدیدار نے اس شخص کو موت کا سرٹیفکیٹ دیا جو اس وقت دبئی میں کام کر رہا ہے۔ معاملہ اس وقت منظرعام پر آیا جب کچھ افراد جنہوں نے دبئی میں کام کرنے والے فرد کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کی تاہم  دبئی میں کام کرنے والے شخص کے رشتہ داروں کے ہاتھوں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ کیا یہ بدعنوانی کی انتہا نہیں ہے کہ جو معاملے صاف اور شفاف ہیں ان کی موت اور پیدائش کی سند وقت پر نہیں ملتی جبکہ جو شخص دبئی میں ملازمت  انجام دے رہا اس کا بہ آسانی ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کردیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ جی ایچ ایم سی کے خیرت آباد سرکل میں  عہدیداروں نے ایک شخص کے بچے کو پیدائشی معذور  ہونے  کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے آؤٹ سورس اسٹاف کو پیدائش اور موت کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا کام سونپا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ عہدیدار بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ ابھی تک کم از کم 10 صحت معاونین کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے اعلی عہدیداروں  کے کہنے پر رشوت اور بدعنوانیوں کا بازار گرم کررکھا ہے ۔